امریکا: ٹک ٹاک کے حوالے سے ‘قومی سلامتی کے بارے میں تحفظات’ ہیں، ایف بی آئی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ ان کے ادارے کو مختصر ویڈیوز کی چینی ایپ ٹک ٹاک کے بارے میں’ قومی سلامتی سے متعلق تحفظات‘ ہیں۔

منگل کو امریکی ایوانِ نمائندگان کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ داخلی سلامتی کے لیے دنیا بھر سے جو خطرات درپیش ہیں ان میں ٹک ٹاک سے متعلق تحفظات بھی شامل ہیں۔

منگل کو ہونے والی سماعت میں ڈائریکٹر ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ چین کی حکومت ٹک ٹاک کے ذریعے اسے استعمال کرنے والے کروڑوں صارفین کا ڈیٹا کنٹرول کرسکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کرسٹوفر رے نے کہا کہ ٹک ٹاک کے ذریعے چین کی حکومت الگورتھم ری کمنڈیشنز کنٹرول کرکے مختلف ڈیوائسز کے آپریشنز پر اثر انداز ہوسکتی ہے یا کروڑوں ڈیوائسز پر استعمال ہونے والے سافٹ ویئرز کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں چین صارفین کی ذاتی ڈیوائسز میں دخل اندازی کر سکتا ہے۔

اپنے تحریری بیان میں ڈائریکٹر ایف بی آئی نے کہا ہے کہ چین سے معاشی اور جاسوسی جیسے خطرات لاحق ہیں۔ تاہم انہوں نے کھلی سماعت میں اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ آیا چینی حکومت ٹک ٹاک کے ذریعے امریکی شہریوں کا ڈیٹا جمع کررہی ہے یا نہیں۔

ٹک ٹاک سے متعلق تحفظات

ٹک ٹاک کے چینی حکومت کے ساتھ تعلقات امریکہ میں قانون سازوں اور حکام کے درمیان گزرے کئی برسوں سے بحث کا محور رہے ہیں۔

قومی سلامتی سے متعلقہ تحفظات پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 میں ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے بعد امریکہ میں عملاً ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تاہم ٹک ٹاک نے ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کو روکنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی تھی۔

گزشتہ برس صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ دور میں دی گئی ہدایات کو منسوخ کرکے محکمۂ خزانہ کو ایپ سے متعلق سیکیورٹی خدشات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔

یہ معاملہ جائزے کے لیےامریکہ کی ’کمیٹی آن فارن انسویسٹمنٹ ان یونائیٹڈ اسٹیٹس‘ (سی ایف آئی یو ایس) کو بھیجا گیا تھا۔ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی سربراہی میں کام کرنے والی یہ کمیٹی امریکی کمپنیوں میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کے سلامتی امور پر اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔ کمیٹی ٹک ٹاک کے امریکہ میں کام جاری رکھنے اور اس سے متعلق خدشات کا جائزہ لے رہی ہے۔

واضح رہے کہ ایف بی آئی کا فارن انویسٹمنٹ یونٹ بھی سی ایف آئی یو ایس کے جائزوں کا حصہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں ڈائریکٹر ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ہونے والے کسی بھی معاہدے پر ہماری رائے بھی لی جائے گی۔

ڈیٹا کا کیا استعمال ہوسکتا ہے؟

اگرچہ ٹک ٹاک چین کی کمیونسٹ پارٹی سے تعلقات کی تردید کرتی ہے لیکن امریکہ میں کانگریس کے ارکان اس ایپ کے ذریعے امریکی صارفین کا ڈیٹا جمع کرنے کے امکان پر تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔

منگل کو ہونے والی سماعت میں ری پبلکن نمائندہ ڈیانا ہرشبرگ نے جریدے فوربز کے ایک حالیہ مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ خاص امریکیوں کی نقل و حرکت ٹریک کرنے کے لیے اس ایپ کے استعمال کا ارادہ رکھتی ہے۔

ٹک ٹاک نے اس مضمون میں عائد کیے گئے الزامات کی تردید کردی تھی اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکی صارفین کی ٹھیک ٹھیک جی پی ایس لوکیشن جمع نہیں کرتی ہے۔

رواں برس جون میں ٹک ٹاک نے امریکی کانگریس کے ارکان کو امریکی صارفین کے ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق تحریری یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

’پالک‘ اور ’افیون‘ کا فرق

رواں ماہ امریکہ کے معروف ٹی وی دستاویزی پروگرام ’60 منٹس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ٹک ٹاک کے دو ورژن ہیں۔ ان میں سے ایک بہت محدود اور صرف چینی صارفین کے لیے ’اسپنچ ورژن‘ ہے جس کے مقاصد تعلیمی ہیں۔ جب کہ ’اوپیم ورژن‘ یعنی افیون قسم کا ٹک ٹاک دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ہے۔

مغربی ممالک میں جو ورژن فراہم کیاجاتا ہے اس پر بچے گھنٹوں صرف کرتے ہیں جب کہ چین میں 14 سال سے کم عمر بچوں پر 40 منٹ سے زیادہ ٹک ٹاک دیکھنے پر پابندی ہے۔’60 منٹس‘ کے مطابق ان چالیس منٹوں میں بھی وہ صرف سائنسی تجربات، میوزیم کی نمائشی، حب الوطنی پر مبنی اور تعلیمی ویڈیوز ہی دیکھ سکتے ہیں۔

بچے عام طور صحت بخش ہونے کے باوجود پالک یا ہری سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے۔ اگر انہیں یہ کھلائی بھی جائیں تو وہ ان کے عادی نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں افیون نشے کی علامت ہے جس کی لت پڑ جاتی ہے۔ اسی فرق کی بنیاد پر ٹک ٹاک کے الگ الگ ورژنز کو سکسٹی منٹ نے یہ نام دیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں