چین کے پاس 400 جوہری بم ہیں، پینٹاگان

واشنگٹن ڈی سی (ڈیلی اردو/وی او اے) پینٹاگان کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ چین کے پاس اب 400 سے زیادہ جوہری بم ہیں، جو صرف دو سال میں اپنے جوہری ہتھیاروں کو تقریباً دوگنا کر چکا ہے، جب کہ اس کی فوج کی جانب سے خطے میں خاص طور پر تائیوان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف “غیر محفوظ” اور “غیر پیشہ ورانہ” فوجی رویے میں اضافہ ہواہے۔

منگل کو جاری ہونے والی کانگریس کے لیے پینٹاگان کی سالانہ رپورٹ”چائنا ملٹری پاور” کے مطابق، چین کی جوہری توسیع کی تیز رفتار بیجنگ کو 2035 تک تقریباً 1500 وار ہیڈز ذخیرہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔

امریکہ کے جوہری ذخیرے کے مقابلے میں، جس میں ایک اندازے کے مطابق 3800 بم فعال حالت میں ہیں، چین اب بھی بہت پیچھے ہے۔

رپورٹ کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی راکٹ فورس (PLARF) نے 2021 میں تقریباً 135 بیلسٹک میزائل، آزمائش اورٹریننگ کے لیے لانچ کیے تھے، “جوتنازعہ والے علاقوں میں بیلسٹک میزائلوں کی تعیناتی کو چھوڑ کر، باقی دنیا کی مشترکہ تعداد سے زیادہ ہے، ”

رپورٹ کے مطابق، اس نے تین بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) سائلو فیلڈز کی تعمیر بھی جاری رکھی، جس میں کم از کم 300 نئے ICBM سائلوز ہوں گے۔

سینئر دفاعی اہل کاروں کے مطابق پینٹاگان کی رپورٹ چین کی ان عسکری صلاحیتوں کے بارے میں معلومات پر مبنی تھی جو دسمبر 2021 تک اکٹھی کی گئی تھیں۔ لیکن اس میں 2022 کے کچھ اہم واقعات کا بھی ذکر کیا گیا تھا، جن میں یوکرین میں روس کی جنگ اور نینسی پیلوسی کا اگست میں تائیوان کا دورہ شامل تھا۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں ملٹری اینڈ پولیٹیکل پاور سینٹر کے سینئر ڈائریکٹر بریڈلی بومن نے کہا کہ چینی میزائلوں کی “تعداد اور معیار” خاص طور پر تشویشناک ہے۔

بومن نے کہا، “اگر کوئی چین کے میزائلوں کے ذخیرے کی صلاحیت اور گنجائش کو دیکھتا ہے، تو یہ ششدر کر دینے والی ہے،”

انہوں نے مزید کہا کہ چین میں فوج کو جدید بنانےکو”دیدہ ودانستہ اور منظم طورپر ان صلاحیتوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے جوخاص طور پر امریکہ کو شکست دینے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔”

جنوبی چین کا سمندر

چین نے آسٹریلیا سمیت خطے میں امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ “غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ” تصادم کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔

سینیئر دفاعی اہل کار نے کہا “ہم نے انڈو پیسیفک خطےمیں زیادہ پرتشدد اور جارحانہ کارروائیاں دیکھی ہیں، جن میں سے کچھ کو ہم خطرناک قرار دیں گے۔”

منگل کے روز، چین نے کہا تھا کہ اس نے بحیرہ جنوبی چین میں سپراٹیلی جزائر کے قریب پانیوں سے ایک امریکی جنگی جہاز کو “ٹریک کر کے ہٹا دیا”۔

بیجنگ، دوسرے ملکوں کے علاقائی دعوؤں کے باوجود، وسائل سے مالا مال سمندر کے بیشتر حصے کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے، اور اس نے ایسے دعوؤں کو تقویت دینے کے لیے سینکڑوں ہیکٹرپر مشتمل مصنوعی جزیرے بنائے ہیں۔

امریکی بحریہ نے وی او اے سے اس بات کی تصدیق کی کہ USS Chancellorsville گائیڈڈ میزائل کروزر نے منگل کو سپریٹلی جزائر کے قریب جہاز رانی کی آزادی سے متعلق ایک آپریشن (FONOP) کیا لیکن اس مشن کے بارے میں چین کے بیان کو “دروغ گوئی” پر مبنی قرار دیا۔

بحریہ نے ایک بیان میں کہا، “USS Chancellorsville نے یہ آپریشن بین الاقوامی قانون کے مطابق کیا اور پھرسمندر کے اس حصےمیں معمول کی کارروائیوں کو جاری رکھا جہاں “ہائی سی” کی آزادیوں کا اطلاق ہوتا ہے۔”

نیوی کے مطابق جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے امریکہ ہر ملک کے پرواز، جہاز رانی اورآپریٹ کرنے کے حق کا دفاع کر رہا ہے، جیسا کہ USS Chancellorsville نےوہاں کیا تھا۔ بحریہ نے مزید کہا کہ چین بصورت دیگر کچھ بھی کہے وہ ہمیں نہیں روکے گا۔ اس نےسپراٹیلی جزائر پر چین کے دعوؤں کو “ضرورت سے زیادہ” اور “ناجائز” قرار دیا۔

امریکہ یہ کارروائیاں بحیرہ جنوبی چین میں اکثر کرتا ہے تاکہ چین اور دیگر ملکوں کے علاقائی دعوؤں کو چیلنج کیا جا سکے اور ان بین الاقوامی پانیوں کے ذریعے آزادانہ گزر گاہ کو فروغ دیا جا سکے جہاں دنیا کے نصف تجارتی بحری بیڑوں کے ذریعے ہر سال کھربوں ڈالر مالیت کے سامان کی نقل وحمل عمل میں آتی ہے ۔

دی ہیگ میں ایک بین الاقوامی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چین کوبحیرہ جنوبی چین پر کوئی تاریخی ملکیت حاصل نہیں ہے لیکن بیجنگ نے اس فیصلے کو نظر انداز کر دیا ہے۔

تائیوان کے آس پاس ‘نیا معمول’

چین نے کہا ہے کہ وہ 2027 تک، اگر ضرورت ہو تو طاقت کے ذریعے تائیوان کو کنٹرول کرنے کی اہلیت حاصل کرنا چاہتا ہے، اورعہدہ داروں نے جزیرے کے ارد گرد ” دھمکی آمیز اورجبری سرگرمی کی نئی بلند سطح” دیکھی ہے۔

ایک سینئر دفاعی اہل کار نے پینٹاگان میں صحافیوں کو بتایا۔”میں عنقریب ہونے والاکوئی حملہ نہیں دیکھ رہا ۔ میرے خیال میں ہمیں جو نظر آرہا ہے وہ PRC (پیپلز ریپبلک آف چائنا) کی جانب سے اسپیکر کے دورے کے بعد تائیوان کے ارد گرد فوجی سرگرمیوں کی سطح کے لحاظ سے ایک نئے معمول کا قیام ہے،”

چین نے پیلوسی کے اس سفر کے دوران اور اس کے فوراً بعد آبنائے تائیوان کے اردگرد بڑی تعداد میں میزائل داغے اور فوجی طاقت کا اظہار کیا، جس کے بارے میں اسپیکر نے کہا کہ دورے کا مقصد 1979 کے قانون کے تحت ، جمہوری جزیرے کے ساتھ کھڑے ہونے اور تائیوان کے ساتھ کیے گئے امریکی وعدے کی پاسداری تھی۔

تب سے، چین نے تائیوان کے ارد گرد جارحانہ کارروائیوں کو کم کر دیا ہے لیکن اپنے جارحانہ رویے کو اس سطح تک کم نہیں کیا ہے جو دورے سے پہلے تھا۔

چینی وزارت دفاع کی طرف سے فراہم کردہ ایک بیان کے مطابق، چین کے وزیر دفاع Wei Fenghe نے گزشتہ ہفتے کمبوڈیا میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو بتایا کہ بیجنگ تائیوان کو ایک “سرخ لکیر” سمجھتا ہے۔

بیان کے مطابق وی نے کہا”تائیوان چین کا ہے۔ تائیوان اور تائیوان کے مسئلے کا حل چین کا اپنا معاملہ ہے جس میں کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کا حق نہیں ہے۔”

روس اور اس سے آگے

چین نے روس کے ساتھ فوجی تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔ 2021 میں روس کی فوج کے ساتھ پہلی بار چینی سرزمین پر بڑے پیمانے پر مشترکہ مشقیں کی گئیں۔ ان مشقوں کو Zapad/Interaction کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ، ایک سینئر دفاعی اہل کار نے کہا کہ بیجنگ نے ماسکو کو براہ راست فوجی مدد فراہم نہیں کی ہے لیکن اس نے روس کی غلط معلومات اور پروپیگنڈے کو فروغ دےکر روس کی حمایت کی ہے۔

چین کے پاس بحری جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے، جس میں تقریباً 340 بحری جہاز اور آبدوزیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین کی فوج کے 975,000 فعال ڈیوٹی ممبران ہیں، اور بیجنگ کی ایوی ایشن فورس خطے کی سب سے بڑی اور دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے، جس کے پاس 2800 سے زیادہ طیارے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چین کی طرف سے سائبر جاسوسی بھی ایک “جدید ترین، مستقل خطرہ” بنی ہوئی ہے۔ پینٹاگان نے چین کی فوج پر الزام لگایا ہے کہ وہ تابکاری کے مربوط سرکٹس، جائروسکوپس، مصنوعی فوم ، ملٹری کمیونیکیشن جیم کرنے والے آلات، ایوی ایشن ٹیکنالوجیز، اینٹی سب میرین جنگی صلاحیتوں اور دیگر ٹیکنالوجیز کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نومبر کے اوائل میں پینٹاگان میں وائس آف امریکا کو جواب دیتے ہوئے، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا، “چین ایک ایسا ملک ہے جو جغرافیائی سیاسی طور پر امریکہ کے لیے ایک اہم چیلنج بننے کی طاقت رکھتا ہے۔””

ملی نے مزید کہا کہ چین 2049 تک دنیا میں اعلیٰ ترین فوج کا حصول چاہتا ہے اور اس نے سائبر، خلا، زمین، سمندر اور فضا میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن انہوں نےاس پر زور دیا کہ امریکہ کی فوج چینی فوج کو آگے نہیں بڑھنے دے گی۔

“اور جب تک ہم” نمبر ون” ہیں ، تب تک ہم اس جنگ کو روکیں گے جس کے بارے میں لوگ فکر مند ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان ایک عظیم طاقت کی جنگ،” ملی نے کہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں