ایران میں احتجاجی تحریک کے دوران دوسری سزائے موت

تہران (ڈیلی اردو) ایران کا کہنا ہے کہ اس نے ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کے سلسلے میں دوسری سزائے موت پر عملدرآمد کردیا ہے۔

ایرانی عدلیہ نے اعلان کیا کہ 23 ​​سالہ مجیدرضا رہنورد کو پیر کی صبح مشہد شہر میں ’سرِ عام‘ پھانسی دے دی گئی۔

ایک عدالت نے اسے ’خدا کے خلاف جنگ‘ کے الزام میں اس وجہ سے سزا سنائی تھی جب یہ پتہ چلا تھا کہ اس نے نیم فوجی تنظیم ’بسیج‘ مزاحمتی فورس کے دو ارکان کو چاقو مار کر ہلاک کیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ مظاہرین کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے ’جعلی ٹرائل‘ کے بعد موت کی سزا دی جا رہی ہے۔

ناروے میں مقیم ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے ٹویٹ کیا ’رہنورد کو ایک انتہائی غیر منصفانہ عمل اور دکھاوے کے مقدمے کے بعد جبری اعترافات کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی۔ اس جرم کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے لیے سنگین نتائج برآمد ہونے چاہییں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا، اور ایک درجن کو موت کی سزائیں پہلے ہی جاری کی جا چکی ہیں۔ مظاہرین کو بڑے پیمانے پر پھانسی دینے کا سنگین خطرہ ہے۔‘

عدلیہ کے خبر رساں ادارے میزان نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ مجید رضا رہنورد کو ’مشہد کے شہریوں کے ایک گروپ کی موجودگی میں‘ پھانسی دے دی گئی۔

اس نے فجر سے پہلے کی کئی تصاویر شائع کیں جن میں مبینہ طور پر پھانسی کو دکھایا گیا تھا، جن میں دو میں ایک شخص کو کرین کے کیبل سے لٹکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

حزب اختلاف کے کارکن ’کولیکٹِو 1500 تصویر‘ نے ٹویٹ کیا کہ راہنورد کے خاندان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسے پھانسی دی جائے گی اور انہیں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ایک اہلکار نے ٹیلی فون کیا اور بتایا ’ہم نے آپ کے بیٹے کو سزا دینے کے بعد اس کی لاش کو بہشت میں دفن کر دیا ہے۔‘

رہنورد کو گرفتاری کے 23 دن بعد پھانسی دی گئی۔

میزان نے پہلے بتایا تھا کہ اس پر 17 نومبر کو مشہد کی ایک سڑک پر بسیج کے دو ارکان کو چاقو مار کر ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ بسیج ایک رضاکار فورس ہے جسے اکثر ایرانی حکام اختلاف رائے کو دبانے کے لیے تعینات کرتے ہیں۔

مشہد کے گورنر نے اُس وقت الزام لگایا تھا کہ چاقو کے حملے اس وقت ہوئے جب ’فساد پسندوں‘ کے ایک گروپ نے ’دکانداروں کو دھمکیاں دینا‘ شروع کیں تاکہ انہیں اپنی دکانیں بند کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بسیج کے ارکان گروپ کے قریب پہنچے تو ایک نے اچانک ان پر چاقو سے حملہ کر دیا۔

19 نومبر کو ان کی گرفتاری کے بعد سرکاری ٹی وی کی طرف سے نشر کی گئی ایک ویڈیو میں راہنورد کی آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے اور بائیں بازو کو ایک شکنجے میں بندھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ فوٹیج میں اس نے کہا کہ اس نے بسیج کے ارکان پر حملہ کرنے سے انکار نہیں کیا لیکن تفصیلات یاد نہیں کیونکہ وہ دماغ کی صحیح حالت میں نہیں تھا۔

سرکاری ٹی وی نے پیر کے روز یہ بھی دکھایا کہ اس نے انقلابی عدالت کے سامنے اس کا ’اقبالِ جُرم‘ کیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران کا سرکاری میڈیا معمول کے مطابق قیدیوں کے جھوٹے اعترافات جرم کو نشر کرتا ہے جنھیں تشدد اور دیگر ناروا سلوک کے ذریعے اقبال جرم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے پیر کے روز کہا کہ ان کے یورپی یونین کے ہم منصب مجید رضا رہنورد اور محسن شکاری کی سزائے موت کے ذمہ داروں کو نشانہ بنانے کے لیے پابندیوں کے ایک نئے پیکج پر اتفاق کریں گے جن میں پاسدارنِ انقلابِ اسلامی (اسلامی انقلابی گارڈ کور — (IRGC- اور جبری اعترافات کی فلم بندی کرنے والے شامل ہیں۔‘

انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ پھانسیاں ڈرانے کی ایک واضح کوشش ہے، اس لیے نہیں کہ لوگوں نے جرائم کیے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ وہ سڑکوں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ ہماری طرح آزادی میں رہنا چاہتے ہیں۔‘

بی بی سی فارسی کی کسرہ ناجی کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پھانسیوں سے ملک میں جاری مظاہروں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی یا آگ زیادہ بھڑکے گی۔

اتوار کی رات مشہد میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے تھے، جب کہ پیر کو رہنورد کی قبر پر بظاہر فلمائی گئی ایک ویڈیو میں لوگوں کو ’ملک کے شہید مجید رضا رہنورد‘ کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا۔

ایرانی حکمران طبقے کے علما کے خلاف خواتین کی قیادت میں مظاہرے ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد شروع ہوئے، جسے ’گشتِ ارشاد‘ (اخلاقی پولیس) نے 13 ستمبر کو ’غلط طریقے سے‘ حجاب یا سر پر اسکارف پہننے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

ایسے احتجاجوں کا سلسلہ ایران کے تمام 31 صوبوں کے 161 شہروں میں پھیل چکا ہے اور انہیں 1979 کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کے لیے سب سے سنگین چیلنجوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ایران کے رہنما ان مظاہروں کو ملک کے غیر ملکی دشمنوں کی طرف سے بھڑکانے والے ’فساد‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تاہم مظاہرین کی بھاری اکثریت غیر مسلح اور پرامن رہی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی نیوز ایجنسی ’ہرانا‘ (HRANA) کے مطابق، اب تک کم از کم 488 مظاہرین سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں اور 18,259 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس نے 62 سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاع دی ہے۔

دو پھانسیوں سے پہلے، عدلیہ نے اعلان کیا تھا کہ اس نے 11 مزید افراد کو موت کی سزا سنائی ہے ، انھیں ’خدا کے خلاف جنگ‘ یا ’فساد فی الارض‘ کے الزامات کے مقدمہ چلائے گئے تھے۔ یہ الزامات ایران کے شریعت پر مبنی تعزیرات کے ضابطہ کے تحت ایک ایسا جرم ہے جس پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ تاہم ان افراد کے نام نہیں بتائے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے محسن شکاری کی موت کے بعد کہا کہ اس نے 18 دیگر افراد کی شناخت کی ہے جنہیں پھانسی کا خطرہ تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ بارہ کو مجرم ٹھہرایا گیا تھا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ دیگر چھ مقدمے کی سماعت میں تھے یا ان پر سزائے موت دینے والے جرائم کی فردِ جُرم عائد کی گئی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دو نوجوان مہان صدرات اور سہند نورمحمد زادہ کو پھانسی دیے جانے کا خطرہ ہے۔

سالانہ پھانسی کی سزاؤں میں ایران چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ایران میں موجودہ بدامنی سے پہلے ہی جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے ایران میں پھانسیوں میں ایک ’خطرناک اضافہ‘ کو ایک الارمنگ صورتِ حال قرار دیا تھا، جب کہ مبینہ طور پر 2017 کے بعد پہلی بار یہ تعداد 400 سے تجاوز کر گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں