جرمنی: سابق نازی کیمپ کی خاتون یکرٹری مجرم قرار

برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) جرمنی میں اس طرز کے ممکنہ طور پر آخری قرار دیے جانے والے اس مقدمے میں عدالت نے سابقہ نازی اذینی مرکز میں بہ طور سیکرٹری کام کرنے والی ایک خاتون کو مجرم قرار دے دیا ہے۔

ستانوے سالہ اس سابق سیکرٹری پر شٹُٹ ہوف کے نازی ہلاکتی مرکز میں دس ہزار سے زائد انسانوں کے قتل میں معاونت کا الزام تھا۔ انہیں دو برس معطل سزائے قید سنائی گئی ہے۔

اس مقدمے میں شمالی جرمن قصبے اتسیہؤ میں ایک علاقائی عدالت سے پبلک پراسیکیوٹر ماکسی وانتسِن نے استدعا کی تھی کہ اِرمگارڈ ف کو ‘ظالمانہ اور بہیمانہ قتل عام‘ میں ملوث ہونے پر سزا دی جائے۔ جرمنی میں نجی کوائف کے قوانین کے تحت مجرمہ کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

اِرمگارڈ ف سابقہ نازی جرمنی کے زیرقبضہ پولینڈ کے علاقے میں شٹٹ ہوف اذیتی مرکز کی سیکرٹری تھی، جہاں دس ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا گیا۔

اِرمگارڈ ف گزشتہ کئی دہائیوں میں نازی دور کے جرائم میں ملوث ہونے پر مقدمہ کا سامنا کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ عدالت میں اِرمگارڈ ف کو لایا گیا، تو وہ ایک وہیل چیئر پر سوار تھیں۔ اِرمگارڈ ف ستمبر سن 2021 میں مقدمے کے آغاز سے قبل اپنے ریٹائرمنٹ ہوم سے فرار ہو گئی تھیں اور میٹرو اسٹیشن کی جانب چلی گئیں تھیں۔ پولیس کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد انہیں ہیمبرگ شہر کے قریب سے حراست میں لینے میں کامیاب ہوئی تھی جب کہ انہیں پانچ روز تک زیرحراست رکھا گیا تھا۔

مقدمے کے آغاز پر اِرمگارڈ ف نے عدالت کے سامنے بیان دینے سے انکار کر دیا تھا، تاہم اکتوبر میں اس مقدمے کے آغاز سے اب تک شٹٹ ہوف کیمپ میں زندہ بچ جانے والے اپنی اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہیں۔

مقدمے میں رضاکارانہ طور پر گواہی دینے پہنچنے پر پبلک پراسیکیوٹر وانسِن نے عینی شاہدین کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ان میں سے کئی افراد بعد میں معاون مدعی کے بطور اس مقدمے کا حصہ بن گئے تھے۔ وانسِن کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ اس لیے بھی تاریخی نوعیت کا حامل ہے کیونکہ ممکنہ طور پر طویل وقت بیت جانے کی وجہ سے اس طرز کا یہ آخری مقدمہ ہو گا۔

اِرمگارڈ ف کا جرم

اِرمگارڈ ف جون 1943ء تا اپریل 1945ء تک اذیتی مرکز کے کیمپ کمانڈر پاؤس ویرنر ہوپے کے دفتر میں کام کرتی رہیں۔ دستاویزات کے مطابق وہ ایس ایس افسر ہوپے کے احکامات وصول کرتی تھیں اور ان کی خط و کتابت کی ذمہ دار تھیں۔

شٹٹ ہوف کے اذیتی مرکز میں مجموعی طور پر تقریبا 65 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں یہودی قیدی، پولیستانی شہری اور سوویت روسی جنگی قیدی شامل تھے۔ پراسیکیوٹر نے ججوں کو بتایا کہ ملزمہ کا دفتری کام اس کیمپ کے فعالیت میں کلیدی نوعیت کا تھا اور اس سے فرشنر کو اس اذیتی مرکز میں ہونے والی تمام تر کارروائیوں کی مکمل آ گہی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں