ماسکو میں ترکی اور شام کے وزرا ئے دفاع کی اہم ملاقات

ماسکو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) ترکی اور شام کے وزرائے دفاع نے برسوں کے سرد سفارتی تعلقات کے بعد پہلی بار ماسکو میں ملاقات کی ہے۔ انقرہ اور دمشق کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازعات کے بعد یہ ملاقات تعلقات کو معمول پر لانے کی ایک واضح علامت ہے۔

روس، ترکی اور شام کے وزرائے دفاع نے 28 دسمبر بدھ کے روز ماسکو میں مشترکہ طور پر کئی اہم مسائل پر بات چیت کی، جس کے بعد ترک وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں اس ملاقات کو تعمیری بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے شام میں جاری خانہ جنگی کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

ترک وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع حلوسی آکار اور قومی انٹیلیجنس ادارے (ایم آئی ٹی) کے سربراہ ہاکان فدان نے ماسکو میں شام کے وزیر دفاع علی محمود عباس اور شامی انٹیلیجنس کے سربراہ علی مملوک کے ساتھ روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو سے ملاقات کی۔

روس نے ملاقات کے حوالے سے کیا کہا؟

روس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نے روسی وزارت دفاع کے حوالے سے کہا کہ اس ملاقات کے دوران، ”شام کے بحران اور پناہ گزینوں کے مسئلے کے حل کے طریقوں کے ساتھ ہی شدت پسند گروپوں سے نمٹنے کے لیے بھی مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔”

اس کا مزید کہنا تھا کہ ”ماسکو میں ترکی، روس اور شام کے وزرائے دفاع کے ساتھ ہی انٹیلیجنس کے سربراہان نے شام اور پورے خطے میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سہ فریقی ملاقاتوں کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔”

سیاسی مبصرین کے مطابق ماسکو میں ہونے والی یہ ملاقات اس لیے اہم تھی کہ ترکی اور شام کے وزرا کے درمیان گزشتہ 11 برسوں میں پہلی بار اس طرح کی بات چیت ہوئی ہے۔ یہ ملاقات اس بات کی بھی مظہر ہے کہ اب دونوں پڑوسی ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایردوآن کی اسد سے ملاقات کا امکان

ترکی اور شام کے درمیان کئی تصفیہ طلب امور پر شدید اختلافات ہیں۔ شام اپنی سر زمین سے ترک فورسز کی واپسی چاہتا ہے، جبکہ ترکی کی خواہش ہے کہ اس سرزمین پر مقیم لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی خیر و عافیت سے شام واپسی ممکن ہو سکے۔

رواں ماہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو انقرہ اور دمشق کے درمیان سفارت کاری کو تیز کرنے کے لیے روس اور شام کے ساتھ سہ فریقی میکنزم تیار کرنے کی ایک تجویز پیش کی ہے۔

ترک صدر ماضی میں شامی صدر بشار الاسد کو ”قاتل” کہہ چکے ہیں، تاہم چند ماہ کے دوران مختلف مواقع پر وہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اسد سے ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ استنبول میں ایک ہلاکت خیز بم حملے کے بعد ترکی نے جواباً شام کے بعض علاقوں پر فضائی کارروائی کی تھی۔ انقرہ استنبول کے وسط میں بم دھماکے کا الزام عسکریت پسند ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کرتا ہے، حالانکہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اس دھماکے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ انقرہ اور دمشق کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے بعد شام میں برسوں سے جاری تباہ کن جنگ کو ایک نئی سمت مل سکتی ہے۔

شام کا شمال مغربی علاقہ اب بھی شامی باغیوں کا ایک بڑا گڑھ ہے اور ان کے قدم جمائے رکھنے میں ترکی کی حمایت کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اس کے برعکس صدر الاسد کی افواج روس اور ایران کی مدد سے ملک کے باقی حصوں میں جنگجوؤں کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں