روس کی جنگ بندی کی پیشکش محض ایک ‘چال’ ہے، یوکرین

کیف +ماسکو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) روس نے جمعہ چھ جنوری کو آرتھوڈوکس کرسمس کی تقریبات کے موقع پر یکطرفہ طور دوپہر سے سات جنوری کی نصف شب تک جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم یوکرین نے پوٹن کی اس تجویز کو ‘منافقت’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پانچ جنوری جمعرات کے روز چھ جنوری کی دوپہر سے سات جنوری کی نصف شب تک یوکرین میں یکطرفہ طور پر 36 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا حکم دیا ہے۔ یہی وقت ہے جب آرتھوڈوکس یا قدامت پسند مکتب فکر کے مسیحی کرسمس کی تقریبات مناتے ہیں۔

کریملن کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن نے روس کے آرتھوڈوکس رہنما پیٹریارک کیرل سے متاثر ہو کر یہ اہم فیصلہ کیا ہے۔

کریملن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ، ”عزت مآب پیٹریارک کیرل کی اپیل کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں روسی فیڈریشن کے وزیر دفاع کو چھ جنوری 2023 کی دوپہر بارہ بجے کے بعد سے سات جنوری 2023 کی نصف شب تک یوکرین میں فریقین کے درمیان رابطے کی تمام لائنوں پر جنگ بندی متعارف کرانے کی ہدایت کرتا ہوں۔”

گزشتہ برس فروری میں یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے پہلی بار اس بڑے پیمانے پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ آیا صدر پوٹن اور روسی افواج اس فیصلے پر مکمل طور پر عمل کریں گے یا نہیں۔

یوکرین نے روس کا بیان مسترد کردیا

یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی نے روسی صدر پوٹن کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو یوکرین کی فوج کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ایک چال قرار دیا ہے۔

زیلنسکی نے رات کے وقت اپنے یومیہ ویڈیو خطاب میں کہا، ”اب وہ کرسمس کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، گرچہ مختصراً ہی سہی، وہ ڈونباس میں ہمارے لڑکوں کی پیش قدمی کو روکنا اور سامان، گولہ بارود اور متحرک فوجیوں کو ہماری پوزیشنوں کے قریب لانا چاہتے۔

یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ جنگ ”یا تو اس وقت ختم ہو جائے گی جب آپ کے فوجی یہاں سے نکل جائیں گے یا پھر ہم انہیں نکال کر باہر کر دیں گے۔” اس سے پہلے صدر کے مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘منافقت’ قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”عارضی جنگ بندی” صرف اسی صورت میں ممکن ہو گی جب روس یوکرین میں اس وقت قابض علاقے سے دستبردار ہو جائے۔ پوڈولیاک نے ٹوئٹر پر لکھا، ”روسی فیڈریشن کو مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دینا چاہیے، اس کے بعد ہی ان کے پاس ‘عارضی جنگ بندی’ ہو سکے گی…یہ منافقت اپنے پاس ہی رکھیں۔”

میڈیا کو ایک مزید تفصیلی بیان میں، پوڈولیاک نے کہا کہ پوٹن کی تجویز ”ایک معمولی چال” تھی۔

انہوں نے میڈیا سے بات چیت میں مزید کہا کہ پوٹن کی تجویز ایک ”معمولی سی چال ہے۔ اس میں جنگ کو ختم کرنے کی ذرہ برابر بھی کوئی خواہش نہیں ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”اس کے علاوہ، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ روس ہی مذہبی رسومات کے مقامات سمیت شہری تنصیبات پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کر رہا ہے اور کرسمس کی تعطیلات کے موقع پر بھی ایسا ہی کیا جاتا رہا۔”

اس سے قبل انہوں نے پیٹریارک کیرل کے جنگ بندی کے مطالبے کو ”مذہبی جال اور پروپیگنڈے کا ایک عنصر” قرار دے کر اسے مسترد کر دیا تھا۔

بین الاقوامی ردعمل

روسی صدر پوٹن نے جنگ بندی کا فیصلہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ فون پر بات چیت بعد کیا ہے۔ ترک صدر نے روسی صدر پر زور دیا تھا کہ وہ یوکرین میں ”یکطرفہ” جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔

ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ اگر پوٹن واقعی امن چاہتے ہیں تو ”وہ اپنے فوجیوں کو گھر واپس بلا لیں گے۔” بیئربوک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ”نام نہاد جنگ بندی روسی قبضے میں روزانہ خوف وہراس میں رہنے والے لوگوں کے لیے نہ تو آزادی لاتی ہے اور نہ ہی سلامتی۔”

یوکرین نے پہلے کہا تھا کہ جنگ بندی سے متعلق کوئی بھی روسی اپیل ماسکو کی طرف سے اپنے فوجیوں کے لیے کچھ مہلت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہو گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اسی طرح کی بات کہی تھی۔ ان سے جب پوٹن کے تازہ حکم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ روسی رہنما ”آکسیجن کی تلاش میں ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں