فیصل آباد میں توہین مذہب کے الزام میں ایک خاتون گرفتار

لاہور (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں پولیس نے ایک خاتون کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ اس خاتون نے مبینہ طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا۔

پولیس نے پاکستانی شہر فیصل آباد سے ایک خاتون کو حراست میں لیا ہے۔ اس خاتون پر الزام ہے کہ اس نے پیغمبری کا دعویٰ کر کے توہین مذہب کا ارتکاب کیا۔ اگر اس کا یہ مبینہ جرم ثابت ہو گیا، تو ملکی قانون کے مطابق اسے سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔

اس خاتون سے منسوب ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں مبینہ طور پر ثنااللہ نامی یہ خاتون اپنے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے بعد مشتعل افراد کے ایک جتھے نے اس خاتون کے گھر پر حملہ کر دیا، جب کہ پولیس نے ایسے میں مداخلت کر کے اس خاتون کو حراست میں لے لیا۔ پاکستان میں اس سے قبل مبینہتوہین مذہب کے متعدد واقعات میں مشتعل افراد کے ہاتھوں کئی لوگوں سڑکوں پر ہی قتل کیے جا چکے ہیں۔

سینیئر پولیس افسر ناصر علی رضوی کے مطابق پولیس نے بروقت مداخلت کر کے اس خاتون کو حراست میں لے لیا۔ رضوی نے بتایا کہ اس خاتون کے ہم راہ دو دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے متنازعہ قانون کے تحت کسی بھی شخص کو توہین مذہب یا توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ گو کہ اس انداز کے زیادہ تر الزامات جھوٹ پر مبنی سمجھے جاتے ہیں تاہم اس الزام پر مشتعل افراد کے ہاتھوں لوگوں کے قتل کے واقعات بھی بار بار دیکھنے میں آتے ہیں۔

انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کے مطابق بہت سے افرادذاتی جھگڑے اور تنازعات نمٹانے کے لیے بھی توہین مذہب کے الزام کا سہارا لیتے ہیں جب کہ اس قانون کے ذریعے ملکی اقلیتوں کو بھی خوف زدہ کیا جاتا ہے۔

پولیس کا کردار

دوسری جانب سوشل میڈیا پر مقامی پولیس افسر ناصر علی رضوی کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جس میں وہ مشتعل افراد کو یقین دلاتے نظر آتے ہیں کہ ملزمہ کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی۔

ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف ندیم سیمسن ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ خود پولیس افسر لوگوں کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ ملزمہ کو سزا دلوائے گا۔

تاہم پولیس کے اس بیان پر بھی سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے، جس میں ایک طرف لوگوں کا کہنا ہے کہ انتہائی کشیدہ ماحول میں ملزمہ کو مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے پولیس افسر نے یہ موقف اختیار کیا تاہم دوسری جانب کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کی یہ تقریر خود غیرقانونی رویے کے زمرے میں آتی ہے اور پاکستان میں اس معاملے کی حساسیت اور مجموعی صورتحال کی وضاحت بھی کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں