بھارتی کشمیر میں بھی طالبات کے حجاب پہننے پر تنازعہ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر کے اسکول کی مسلم طالبات کا کہنا ہے کہ ان سے عبایا نہ پہننے کو کہا جا رہا ہے۔ کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کو ‘مذہبی معاملات میں مداخلت’ قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/AhmedKhabeer_/status/1666714886221725696?t=JgUbWplTnrt1ruEGaiqQHg&s=19

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کا ایک اسکول اس وقت بحث کا موضوع ہے، جہاں چند روز قبل عبایا پہننے والی کئی طالبات کو کیمپس میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس پر ہنگامہ گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا جب طالبات نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔

اسکول کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور طالبات نے اسکول کے باہر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے پر عمل نہیں کریں گی، چاہے انہیں گھر پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

واضح رہے کہ بھارت کی بعض دوسری ریاستوں میں پہلے بھی اس طرح کے متنازعہ فیصلوں سے ہنگامہ آرائی ہو چکی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور بالعموم طالبات حجاب یا عبایا پہنتی ہیں۔

تازہ معاملہ کیا ہے؟

یہ معاملہ پہلی بار پانچ جون پیر کی صبح اس وقت سامنے آیا تھا، جب سری نگر کے ‘وشو بھارتی ہائر سیکنڈری’ اسکول کی عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اسکول پرنسپل نے ان سے یہ کہہ کر اسکول میں داخل ہونے سے منع کر دیا کہ وہ اس لباس میں اسکول نہیں آ سکتیں۔

تاہم گیارہویں اور بارہویں کلاس کی درجنوں طالبات نے جمعرات کے روز اسکول کے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ انتظامیہ نے اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے انہیں اپنے عبایہ اتارنے کو کہا۔

اس حوالے سے بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، جس میں ایک طالبہ کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ “جب میں جمعرات کی صبح اسکول آئی تو دربان نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم حجاب پہننے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں اسکول کے بجائے درسگاہ (اسلامی مدرسے) میں جانا چاہیے۔”

احتجاج سے متعلق ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں 12ویں جماعت کی ایک طالبہ ریحانہ منظور جمعرات کی صبح اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے منع کرنے پر ایک مرد سے بحث کر رہی ہیں۔ اس میں بھی عبایا پہننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

12 ویں جماعت کی ایک اور طالبہ رومیسہ جان کا کہنا تھا، “میں اسکول کے ٹاپرز میں سے ایک ہوں۔ اسکول انتظامیہ نے بدھ کو میرے والدین سے بات کی اور پھر اصرار کیا کہ ہمیں عبایا ہٹا دینا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم جینز پہنیں۔ وہ ہمیں اپنی عبایوں کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔”

اسکول کی وضاحت

وشو بھارتی ہائر سیکنڈری اسکول سری نگر کے رینا واری علاقے میں واقع ہے، اس کی پرنسپل نمروز شفیع نے ابتدائی طور پر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ لڑکیوں سے اسکول کے اندر ان کا عبایا ہٹانے کو کہا گیا تھا۔

تاہم ہنگامہ آرائی کے بعد نجی ملکیت والے اسکول کی انتظامیہ نے اس “غلط بیانی” کے لیے معذرت کی۔ اسکول کا کہنا ہے کہ احاطے میں عبایا پر پابندی لگانے کا کوئی انتظامی حکم نہیں تھا اور طالبات کو صرف “ڈریس کوڈ” کی پابندی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

ہنگامے کے بعد پرسنپل نے اپنے ایک بیان میں کہا، “کچھ طالبات مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ کثیر رنگوں کے عبایوں میں اسکول آتی ہیں، جو کہ اصل کے خلاف ہے۔ حجاب اسکول یونیفارم میں شامل ہے اور طالبات اسکول میں یونیفارم پہننے کی پابند بھی ہیں۔ ہم نے انہیں تین چوائسز دی ہیں۔ کوئی ان کے عبایوں کو نہیں ہٹا رہا ہے۔”

بعد میں ایک بیان میں اسکول کے پرنسپل نے یہ بھی کہا کہ طلبہ کے الزامات “مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط بیانی” پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، “اسکول انتظامیہ ہمیشہ معاشرے کے تمام طبقوں کے جذبات کا احترام کرتی ہے اور ڈریس کوڈ کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ عبایا پہننے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے لیکن شائستگی کے ساتھ طلبہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ عبایا کے نیچے اسکول یونیفارم بھی پہنیں۔”

سخت رد عمل

اسکول میں زیر تعلیم متعدد طالبات کے والدین اور کئی دیگر افراد نے اسکول کے اس فیصلے اور اس کے باہر پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔ بیشتر افراد نے اسکول انتظامیہ پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔

ایک طالبہ کے والد عبدالمجید نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اسکول انتظامیہ کا فیصلہ “اسلام کے اصولوں کے خلاف” ہے۔ انہوں نے کہا “میں اپنی بیٹی کو عبایا پہنے بغیر اسکول جانے کی اجازت دینے کے بجائے گھر پر بیٹھنے دوں گا۔ وہ گھر میں عبایا پہنتی ہے، تو اسکول میں عبایا پہننے پر اسکول انتظامیہ کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔”

نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان تنویر صادق کا کہنا تھا کہ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہونا چاہیے اور مذہبی لباس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کرنا بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور فوری اصلاحی کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔”

کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الاسلام نے کہا کہ عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے کا کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ ادارہ پہلے، “صرف لڑکیوں کا اسکول تھا جسے اب مخلوط تعلیم کے ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں