کشتی حادثہ: یونان میں 400 پاکستانیوں کی اموات کا شبہ

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) یونان کے سمندر میں خوفناک کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی لاپتہ ہیں اور مسلسل نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کشتی میں سوار پاکستانیوں کی تعداد 400 ہوسکتی ہے۔ بین الاقوامی صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز کے رسی باندھنے سے کشتی ڈوبی۔

ہفتہ کی شام تک لاپتہ پاکستانیوں میں سے 63 کے نام ان کے پاکستان اور آزادکشمیر میں مقیم اہلخانہ کے ذریعے سامنے آچکے تھے۔ کشتی پر سوار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے لیکن گجرات، گجرانوالہ اور دیگر اضلاع کے کافی نوجوان بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اس سانحے پر پیر 19 جون کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ کل ملک بھر میں سرکاری عمارات پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔

دنیا بھر کے صحافتی ادارے اور میڈیا نمائندے اس کشتی حادثے کی کوریج میں مصروف ہیں اور پل پل ایک نیا انکشاف ہو رہا ہے۔

انہی صحافیوں میں سے ایک سکندر کرمانی بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں سے ایک سے بات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سنکدر کرمانی ایک برطانوی صحافی ہیں جو برطانیہ کے چینل فور سے وابستہ ہیں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں بتایا، ’وہ فلمائے جانے کے حوالے سے بہت پریشان اور ڈرا ہوا تھا، لیکن اس نے اہم معلومات دیں۔‘

سکندر نے اس شخص کے حوالے سے بتایا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے جو کچھ کہا وہ الگ، لیکن اُس (حادثے میں بچنے والے شخص) نے کہا کہ کوسٹ گارڈ کی جانب سے کشتی کو رسی سے باندھنے کی کوشش کے فوراً بعد کشتی الٹ گئی۔

سکندر کے مطابق اس شخص نے یہ بھی کہا کہ جہاز میں تقریباً 750 افراد سوار تھے۔ جن میں سے تقریباً 400 پاکستانی، 200 مصری اور 150 شامی تھے۔

اس شخص نے سکندر کو بتایا کہ (کشتی میں) ’دو درجن کے قریب شامی خواتین اور چھوٹے بچے بھی تھے‘۔

مذکورہ شخص کے مطابق بچ جانے والوں میں سے زیادہ تر کشتی کے اوپر کی جانب تھے، جیسے وہ تھا۔

سکندر کرمانی نے ایک نوجوان کی تصویر شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ساجد ہے، جو یونانی سمندر میں کشتی حادثے کے بعد لاپتہ ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے ایک ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس کے والد سے بات کی، جنہوں نے کہا، ’ہم نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا‘ اور یورپ پہنچنے کے لیے پرعزم تھا کیونکہ اسے لگا کہ پاکستان میں مواقع نہیں ہیں۔

انہوں نے حادثے کے بعد الٹنے والی کشتی کی تازہ ویڈیو بھی شئیر کی۔

ایک اور شامی صحافی علیشیا مدینہ نے کہا، ’میں ابھی ملاکاسا پناہ گزین مرکز سے واپس آئی ہوں جہاں کشتی حادثے سے بچ جانے والے 71 افراد رہ رہے ہیں۔‘

عیلیشیا نے کہا کہ ’تین زندہ بچ جانے والوں نے تصدیق کی کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے ان کی کشتی سے رسی باندھی، انہیں کھینچا اور پھر کشتی الٹ گئی۔‘

’انہوں نے مجھے بتایا کہ کشتی الٹنے کے بعد، کوسٹ گارڈز نے ان سے ”دوری اختیار کی“ اور وہاں سے چلے گئے۔‘

علیشیا کے مطابق ’ان کا کہنا ہے کہ وہ 2 سے 3 گھنٹے پانی پر اسی طرح رہے جب تک کہ انہیں بچا نہ لیا گیا۔‘

شامی صحافی نے وہاں موجود زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے بتایا کہ حکام کسی کو باڑ والے کیمپ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔

وہاں موجود لوگوں نے علیشیا کو بتایا کہ ’یہ ایک جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے‘۔

علیشیا نے مزید بتایا کہ کیمپ کے حکام نے انہیں بچ جانے والوں سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی، اور انہیں باڑ سے دور رہنے کو کہا۔

یونان کی بائیں بازو کی جماعت MeRA25 کی رکن اسمبلی کرٹن آرسینس نے بچ جانے والوں میں سے کچھ سے بات کی، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ کشتی اس وقت الٹی جب انہیں یونانی کوسٹ گارڈ کے ذریعے کھینچا جا رہا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوسٹ گارڈز نے جان بوجھ کر کشتی دوبنے دی۔

دوسری جانب یونانی وزارت برائے مہاجرین کے ایک اہلکار مانوس لوگوتھیٹس نے برطانوی خبر رساں ادارے ”چینل 4 نیوز“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوسٹ گارڈ نے کیپٹن یا جہاز میں موجود دیگر لوگوں سے آمنے سامنے بات کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے تارکین وطن کی کشتی کے ڈوبنے سے دو گھنٹے قبل اس سے رسی باندھنے کی کوشش کی تھی۔

یونانی حکومت کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے تارکین وطن کے ساتھ رابطے کے لیے چھوٹی سی کشتی سے ایک رسی باندھنے کی کوشش کی، لیکن تارکین نے اس کی مزاحمت کی۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یونانی کوسٹ گارڈ جہاز میں سوار افراد سے کافی قریب تھے؟

اہلکار نے جواب دیا، ’ہاں وہ میرے خیال میں کپتان سے بات کر رہے تھے یا وہاں موجود پورے ہجوم سے بات کر رہے تھے کیونکہ وہ یونیفارم نہیں پہنتے، آپ اس سے بات کریں جو آپ کو جواب دے‘۔

حالانکہ یونانی کوسٹ گارڈ نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ ’واضح فاصلے‘ پر رہے۔

کوسٹ گارڈ کے بیان میں کشتی کے ساتھ رسی باندھنے کی کوشش یا جہاز میں سوار افراد سے آمنے سامنے بات چیت کرنے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔

یونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے مبینہ طور پر پیچھے دھکیلنے کی کوشش بھی اب تازہ جانچ کے دائرے میں ہے۔

کیا یونان تارکین وطن کی کشتیوں کو پیچھے دھکیل کر سمندر میں چھوڑ دیتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں لوگوتھیٹس نے کہا، ’نہیں، یونان صرف یونان کی سرحدوں اور یورپ کی سرحدوں کا دفاع کر رہا ہے۔‘

گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے کہا تھا کہ انہوں نے یونان کی طرف سے ’غیر رسمی واپسی‘ کے 540 واقعات ریکارڈ کیے اور ’ہزاروں لوگوں کے انٹرویو کیے جنہیں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔‘

پچھلے مہینے نیویارک ٹائمز نے فوٹیج شائع کی تھی، جس میں مبینہ طور پر لیسبوس کے یونانی کوسٹ گارڈ افسران کو تارکین وطن کو ایک چھ ماہ کے بچے سمیت کشتی پر زبردستی سوار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور پھر انہیں بیڑے پر چھوڑ دیا گیا تھا، بعد ازاں ترک حکام نے انہیں بچایا تھا۔

یونانی عوام تارکینِ وطن مخالف پالیسیوں کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے

یونانی عوام تارکینِ وطن مخالف پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق یونان میں ساحل پر تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے کے سانحے کے بعد احتجاج کرنے والے مظاہرین نے کہا کہ یونانی حکام نے تارکین اور پناہ گزینوں کو بچانے کے اقدامات نہیں کیے۔

یونان کے اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ کشتی سانحہ یورپی یونین کی جانیں بچانے کی ترجیحی پالیسی کے فروغ کی ناکامی ہے۔

رپورٹس کے مطابق تارکینِ وطن کو لانے کا انتظام کرنے والے 9 افراد کو یونان میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس سانحے سے متعلق اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس میں اب تک 104 افراد کو بچایا جا سکا ہے جبکہ 78 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیز کے مطابق تارکینِ وطن کی ڈوبنے والی کشتی میں 400 سے 750 افراد سوار تھے۔

واضح رہے کہ لیبیا کے ساحلی شہر طبرق سے اٹلی جانے والی کشتی میں اطلاعات کے مطابق 750 سے زائد افراد سوار تھے جن میں 100سے زائد بچے اور متعدد خواتین بھی شامل تھیں۔

وزیراعظم پاکستان کی ہدایت اور انسانی اسمگلروں کی گرفتاریاں

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے کی انکوائری اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

لیکن اس سے قبل ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آچکے تھے۔

جہلم میں ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دیکر لاکھوں روپے بٹورنے والا ایجنٹ گرفتار کرلیا۔ ملزم احمد سعید کامران کو تفتیش کے لیے گوجرانوالہ منتقل کردیا گیا۔

دوسری جانب ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ائیرپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے ایک انسانی اسمگلر کو گرفتار کیا۔ ملزم نے متعدد افراد کو غیر قانونی طریقے سے لیبیا بھجوایا تھا۔

ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم بین الاقوامی پرواز سے آذر بائیجان فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ ملزم گزشتہ کئی ماہ سے روپوش تھا اور اس کے خلاف اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گجرات میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گجرات کے حوالے کردیا گیا۔

کوٹلی آزاد کشمیر میں بھی نیٹ ورک کے 9 ایجنٹس کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

آئی جی ڈاکٹر خالد چوہان نے بتایا کہ کوٹلی آزاد کشمیر میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، غیر قانونی طریقہ سے نوجوانوں کو یورپ بھیجنے والے9 ایجنٹ گرفتار کرلئے گئے ہیں، یونان کشتی حادثہ میں کھوئی رٹہ کے 24 سے 26 لوگ شامل تھے، گرفتار 9 ایجنٹوں کے خلاف تھانہ کھوئی رٹہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

خیال رہے کہ یونان کشتی حادثے کے بعد 60 سے زائد پاکستانی بدستور لاپتہ ہیں، لاپتہ ہونے والوں 13 کا تعلق گجرات، اور 50 کے قریب افراد میرپور آزاد کشمیر سے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ کشتی پائلوس کے جنوب مغرب میں تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر کوسٹ گارڈ کی جانب سے مدد سے انکار کے بعد ڈوبی۔

کشتی لیبیا سے اٹلی جا رہی تھی، جس میں سوار بیشتر افراد کی عمر20 سال تھی، جبکہ جہاز میں سوار زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان، شام اورمصر سے تھا۔

لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب سمندر میں کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے 22 نوجوانوں کا تعلق نوشہرہ ورکاں، 10 نوجوانوں کا تعلق کڑیال کلاں، 4 نوجوانوں کا تعلق نواحی گاؤں بھاکرنوالی سے ہے۔

کشتی حادثے میں ڈوبنے والے میلو ورکاں کے رہائشی دو نوجوان آپس میں کزن ہیں۔

حادثے میں لاپتا دو نوجوانوں کا تعلق نواحی گاؤں نتھو سیویا جبکہ دو کا تعلق خان مسلمان سے ہے، ایک نوجوان کا تعلق نواحی گاؤں چک پاکھر جبکہ ایک کا تعلق منگوکی سے ہے۔

مذکورہ نوجوانوں کے گھروں میں سوگ کا سماں ہے۔ والدین اور رشتہ دار نوجوانوں کے زندہ ہونے کی دعائیں کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں