تارکینِ وطن کی کشتی کو بچانے میں تاخیر ہوئی، تحقیقات کیلئے یونان پر دباؤ

ایتھنز (ڈیلی اردو/وی او اے) 13 جون کو 750 تارکینِ وطن کو لے جانے والی کشتی کے ڈوبنے کی آزادانہ تحقیقات شروع کرنے کے لیے یونان پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں تارکین وطن کو لے جانےوالی کشتی کے اس سب سے مہلک حادثے میں، کم از کم 82 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے اور سینکڑوں اب بھی لاپتہ ہیں، جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مصر، شام اور پاکستان سے تھا۔

حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کا الزام ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیاں بہت تاخیر سے شروع ہوئیں اور ہو سکتا ہے کہ یہی تاخیر کشتی کےڈوبنے کا باعث بنی ہو۔

یونانی حکام اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والی یہ بدقسمت کشتی لیبیا سے 750 افراد کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرونٹیکس سے تعلق رکھنے والے طیارے سے لی گئی فوٹیج میں 13 جون کی صبح کو گنجائش سے زیادہ بھری کشتی کو یونان سے آگے بہت آہستگی سے بڑھتے ہوئے دکھایا گیا۔

“فرونٹیکس نے فوری طور پر یونانی اور اطالوی حکام کو مطلع کیا، انہیں کشتی کی حالت، رفتار اور تصاویر کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ طیارہ کشتی کی نگرانی کرتا رہا، تمام متعلقہ قومی حکام کو مسلسل اپ ڈیٹ فراہم کرتا رہا یہاں تک کہ اس طیارے کا ایندھن ختم ہو گیا اور اسے اڈے پر واپس جانا پڑا۔ ”

یونانی کوسٹ گارڈ

یونانی کوسٹ گارڈ نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ کشتی اٹلی کی طرف آہستہ رفتار سے صحیح راستے پر رواں دواں تھی، اس لیے اس نے مداخلت نہیں کی۔ بعد میں اس کا کہنا تھا کہ اس نے تارکین وطن کی کشتی کی مدد کے لئے اسے رسی سے باندھ کر کھینچنے کی کوشش کی، لیکن کہا کہ تارکین وطن نے اس رسی کو کھول دیا۔

ایک جہاز سے لی گئی ایک اضافی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ،عملے نے انہیں پانی اور کھانا بھی پیش کیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ بعد میں تارکین وطن کی کشتی کا انجن دوبارہ سٹارٹ کیا گیا۔

یہ کشتی اسی رات یونانی بندرگاہ پائلوس سے تقریباً 80 کلومیٹر جنوب میں یونانی پانیوں میں ڈوب گئی، بہت سے زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے کئی گھنٹے تک بجلی سے محروم رہی۔

اقوام متحدہ کا ردعمل

اقوام متحدہ نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے 14 جون کو صحافیوں کو بتایا۔ کہ یونان کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے کی خبروں سے جس میں متعدد خواتین، مردوں اور بچوں کی جانیں گئیں اقوامِ متحدہ کےسیکریٹری جنرل سخت افسردہ ہیں۔

دوجارک کا کہنا تھا کہ جیسا کہ سیکریٹری جنرل پہلے بھی کہتے رہے ہیں، کہ ہر فرد کو وقار اور حفاظت کے ساتھ بہتر زندگی کی تلاش کا حق ہے۔ یہ رکن ممالک کے لئے ایک پیغام ہے کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر نقل مکانی پر مجبور لوگوں کی زندگی آسان بنائیں، انہیں سمندر میں ڈوبنے سے بچائیں اور ان کے خطرناک سفر کو محفوظ بنائیں۔

زندہ بچ جانے والوں کا موقف

انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی شہادتیں، ساحلی محافظوں کے موقف کے برعکس ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کونڈیلیا گوگو نے، وائس آف امریکہ کے ساتھ، ایک انٹرویو میں کہا، کہ بچ جانے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ایک رسی دی گئی تھی کہ وہ کشتی کو اس سے باندھ لیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ رسی باندھنے کے باعث یہ واقعہ ہوا اور غلط موڑ کاٹتے ہوئےکشتی کا توازن بگڑ گیا اور وہ ڈوب گئی۔

یونان کا مسلسل یہ اصرار ہے کہ تارکین وطن نے مدد نہیں مانگی اور کشتی ڈوبنے کے وقت تک انہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ اور کہا کہ اس نے واقعے کی عدالتی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ لیکن گوگو کا کہنا تھا کہ صرف یہی کافی نہیں ہے۔

گوگو کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ مناسب، آزادانہ اور موثر تحقیقات کی جائیں۔ انکا کہنا تھا کہ آپ فضاسے لی جانے والی تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کشتی سمندر میں سفر کے قابل نہیں تھی لٰہذا آپ کو مداخلت کرنی چاہئے تھی، یہ آپ کے فرائض میں شامل ہے. اور یہی تاخیر ایک ناکامی ہے۔

گرفتاریاں

یونانی پولیس نے نو مصری شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کشتی پر سوار تھے۔لیکن وہ انسانی اسمگلنگ اور مجرمانہ کاروبار میں حصہ لینے کے الزامات سے انکار کررہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کونڈیلیا گوگو کا کہنا ہے کہ یورپ کی ناقص مائیگریشن پالیسیاں بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، جب تک یورپی یونین، محفوظ اور قانونی راستوں کے لیے پالیسیاں نہیں بناتا اس قسم کے خطرناک سفر جاری رہیں گے۔

زندہ بچ جانے والوں کو یونان میں واقع ایک مہاجر کیمپ میں لے جایا گیا، جو کالاماتا شہر کے قریب ہے۔ لیکن انتہائی مایوسی اور غم کے درمیان کبھی کبھار خوشی کے لمحات بھی آ جاتے ہیں اور ایسا ہی ان زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ ہوا کہ اپنے عزیزوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہوگئی، ان میں سے بہت سے یورپ اور اس سے باہر کے دوسرے ممالک سے سفر کر کے یہاں آئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں