میانمار کی سرحد سے ملحقہ بھارتی ریاست ’منی پور‘ خانہ جنگی کے دہانے تک کیسے پہنچی؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) گذشتہ ہفتے انڈین فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے اپنی آبائی ریاست منی پور کی موجودہ حالت زار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں ایل نشیکانتا سنگھ نے کہا کہ ’دی سٹیٹ از ناؤ سٹیٹ لیس‘ یعنی ریاست میں اب لاقانونیت ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ لیبیا، لبنان، نائجیریا اور شام وغیرہ کی طرح یہاں بھی کوئی کسی بھی وقت کسی کی زندگی اور جائیداد کا حشر نشر کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور گذشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر پرتشدد مظاہروں کی زد میں ہے۔ خیال رہے کہ تقریباً دو ماہ قبل یہ ریاست نسلی فسادات کی زد میں آ گئی تھی مگر اب بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ منی پور خانہ جنگی کے دھانے پر ہے۔

میٹی اور کوکی کمیونٹی کے درمیان جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد مارے گئے ہیں جبکہ 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ان فسادات کی وجہ سے اب تک 60 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اب وہ 350 مختلف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اس وقت یہاں پُرتشدد کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے 40 ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکار برسر پیکار ہیں۔ پُرتشدد کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے ہجوم کی طرف سے پولیس کے اسلحہ خانے سے لوٹے گئے چار ہزار سے زیادہ ہتھیاروں میں سے صرف ایک چوتھائی رضاکارانہ طور پر واپس کیے گئے ہیں۔

متحارب کمیونٹیز کے درمیان عدم اعتماد کی فضا تیزی سے بڑھی ہے۔ دونوں گروہوں نے سکیورٹی فورسز پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

جبکہ دو سو سے زیادہ گرجا گھروں اور 17 مندروں کو مشتعل ہجوم نے تباہ کیا یا نقصان پہنچایا ہے۔ مقامی وزرا اور قانون سازوں کے گھروں پر حملے کیے گئے اور انھیں آگ لگا دی گئی ہے۔

معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ریاست کے 16 میں سے بیشتر اضلاع میں رات کا کرفیو جاری ہے۔ سکول بند ہیں اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔ سامان لے جانے والی ایک مرکزی شاہراہ کو مظاہرین نے بند کر دیا ہے۔ قتل و غارت اور آتش زنی کے واقعات ہوتے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے لیے امن پینل کے قیام کی تجویز کی سخت مخالفت دیکھنے میں آئی ہے۔

’شمال مشرقی انڈیا کی خواتین کے اقدام برائے امن‘ کی بنلکشمی نیپرم کہتی ہیں کہ ’یہ منی پور کی تاریخ کا تاریک ترین لمحہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’دو دنوں کے اندر اندر گھروں کو جلا دیا گیا اور لوگوں کو مارا گیا، جلایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ منی پور نے اپنی حالیہ تاریخ میں اس قسم کا تشدد نہیں دیکھا ہے۔‘

انڈیا کا پراُمن اور دور دراز شمال مشرقی خطہ تقریباً 45 ملین افراد کا مسکن ہے، جن کا تعلق 400 سے زیادہ برادریوں سے ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں خطے بھر میں ان متحارب گروپوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کرنے والے امن مذاکرات کے تقریباً 17 دور ہو چکے ہیں۔

میانمار کی سرحد سے جڑی اس ریاست منی پور کی نسلی تشدد کی ایک تاریخ ہے۔

اس ریاست میں تقریباً 33 نسلی قبائل آباد ہیں۔ اس کا یہ تنوع اب تیزی سے تقسیم کی وجہ بن رہا ہے۔ اس ریاست میں اس وقت تقریباً 40 باغی گروہ ہیں۔ میٹی، ناگا اور کوکی باغیوں نے مسلح افواج کے سپیشل پاورز ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) جیسے متنازع قوانین کے خلاف احتجاجاً طویل مسلح جدوجہد شروع کی۔

اس دوران انھوں نے اکثر انڈین سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ہے۔ میٹی، ناگا اور کوکی ملیشیا بھی آپس میں علیحدہ سرزمین حاصل کرنے کے متضاد مطالبات کی وجہ سے لڑ چکے ہیں۔

منی پور کے اندازے کے مطابق 3.3 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ میٹی کمیونٹی کے لوگ آباد ہیں۔ تقریباً 43 فیصد لوگ پہاڑوں پر آباد کوکی اور ناگا برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو یہاں کی اکثریتی قبائلی کمیونٹی ہیں۔ زیادہ تر میٹی ہندو ہیں جبکہ زیادہ تر کوکی مسیحی ہیں۔

اس سے قبل منی پور میں نسلی اور مذہبی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دی فرنٹیئر منی پور کے ایڈیٹر دھیرن اے سدوکپم کا کہنا ہے کہ ’اس بار تنازع کی جڑ مذہب نہیں بلکہ نسل پرستی ہے۔‘

گذشتہ ماہ مئی میں ہونے والی بڑے پیمانے پر پرتشدد کارروائی پر تنازع اس وجہ سے شروع ہوا کہ کوکی کمیونٹی نے میٹی کے لیے قبائلی حیثیت کے مطالبے کی مخالفت کی۔ لیکن صرف یہ تنازع پوری صورتحال کا احاطہ نہیں کرتا ہے کہ کس طرح یہ ریاست فسادات کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔

خطے میں بنیادی کشیدگی کے پیچھے متعدد پیچیدہ محرکات ہیں، جس میں ایک طویل عرصے سے جاری شورش، منشیات کے خلاف ایک متنازع حالیہ جنگ، غیر محفوظ سرحدوں کے ذریعے شورش زدہ میانمار سے غیر قانونی ہجرت، آبادی کا دباؤ، اور روزگار کے مواقع میں کمی شامل ہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن سے متاثر ہو کر نوجوان ان باغی گروپوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے منشیات کے کاروبار میں سیاستدانوں کی مبینہ شراکت اور سیاست دانوں اور عسکریت پسندی کے درمیان گٹھ جوڑ ہے بھی ان تنازعات کی وجہ ہیں۔

منی پور کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کی قیادت میں جو میٹی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے پوست کی کاشت کو نشانہ بنانے کے لیے ایک متنازع ’وار آن ڈرگز‘ مہم شروع کی ہے۔ سنہ 2017 سے حکومت نے 18,000 ایکڑ سے زیادہ پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر کوکی آباد علاقوں میں واقع ہیں۔

منی پور منشیات کی لت کے بحران سے نبرد آزما رہا ہے اور میانمار کی سرحد سے متصل چار شمال مشرقی انڈین ریاستوں میں شامل ہے۔

واضح رہے کہ میانمار دنیا کا دوسرا سب سے بڑا افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ بیرن سنگھ کی مہم نے کوکیوں کے ایک دھڑے اور حکومت کے درمیان تقسیم کو بڑھا دیا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ پوست کی کاشت کرنے والے دیہات، جہاں زیادہ تر کوکی آباد ہیں کو علاقہ غیر قرار دیا جائے گا اور اسے فلاحی فوائد سے محروم کردیا جائے گا۔

مارچ میں انھوں نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ ان کی حکومت نے ’کچھ کوکیوں کے خلاف بڑی قوت سے کارروائی کی ہے جو ہر جگہ تجاوزات کر رہے ہیں، جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں، پوست کی کاشت کر رہے ہیں اور منشیات کا کاروبار کر رہے ہیں۔‘

اسی مہینے کوکیوں نے پہاڑی اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے۔ انھوں نے اسے ان کی کمیونٹی کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

منی پور میں گنجان آبادی بھی ایک مسئلہ ہے یعنی تقریباً 60 فیصد آبادی ریاست کی صرف دس فیصد اراضی پر وادی امپھل میں آباد ہے۔ میٹی اس حقیقت سے ناراض ہیں کہ انھیں اور دیگر غیر قبائلی لوگوں کو پہاڑی اضلاع میں زمین خریدنے یا آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ بنگلہ دیش اور میانمار جیسے پڑوسی ممالک کے آباد کاروں، جن کی تعداد میں ان کے خیال میں گذشتہ برسوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے کے اب اس ریاست میں داخلے پر پابندی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

چونکہ زمین کی ملکیت خصوصی طور پر گاؤں کے سربراہ کے بڑے بیٹے کے پاس جاتی ہے تو ایسے میں زیادہ علاقوں کی طرف ہجرت کرنے کی ایک کوکی روایت نے خاندان کے دوسرے مرد اراکین کے ذریعہ نئے گاؤں قائم کیے ہیں اور یوں زمین پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔

بنلکشمی نیپرم کا کہنا ہے کہ ’یہاں کے لوگوں کے درمیان اس عدم اعتماد کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔‘

تنازع کو ختم کرنے کے بجائے، چھوٹے نسلی گروہوں کو کئی دہائیوں سے دہلی نے بغاوت سے لڑنے کے لیے اور ساتھ ہی بندوقوں، منشیات اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے ذریعے مسلح تربیت دی ہے۔‘

یہی سب کچھ نہیں ہے۔ ریاست میں موجود دو پہاڑیوں پر تنازع ہے، جس میں میٹی اور کوکیوں کی ملکیت کے متضاد دعوے ہیں۔ میٹی پہاڑیوں کو مقدس مانتے ہیں، جب کہ کوکی پہاڑیوں کے نیچے کی زمین کو اپنا آبائی علاقہ سمجھتے ہیں جس پر تجاوزات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بھگت اوینم کہتے ہیں کہ ’گذشتہ پانچ سالوں سے دونوں کمیونٹیز کے درمیان دشمنی اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے، کچھ کا تعلق مقامی عقائد اور عبادات سے ہے اور کچھ کا تعلق تجاوزات سے ہے۔‘

وزیر اعظم نریندر مودی کو تشدد پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حکومت کرنے والی بی جے پی کے وزرا اور قانون سازوں کی اکثریت دارالحکومت دہلی میں جمع ہوئی ہے تاکہ صورتحال کو حل کرنے اور اس کو سنبھالنے کی حکمت عملی تیار کی جا سکے۔

کوکی کمیونٹی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ریاست کے امور خود سنبھال لے اور کمیونٹی کے لیے ایک علیحدہ انتظامیہ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جس پر ناگا کمیونٹی اپنا ردعمل دے سکتی ہے کیونکہ ان کی طرف سے بھی ایسے ہی مطالبے کا امکان پایا جاتا ہے۔

کوکی ویمنز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی ہوینو کہتی ہیں کہ ’میٹی اور کوکی اب ہر پہلو سے مکمل طور پر الگ ہو چکے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس خود کو چلانے کا کوئی میکنزم نہیں ہو گا تو اس کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔‘

منی پور کی اسمبلی میں 60 منتخب قانون سازوں میں سے دس کوکی ہیں اور ان میں سے تین ریاست کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کی دس رکنی کابینہ میں صوبائی وزیر ہیں۔

کوکی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی صحافی کیبی چونگلوئی کہتی ہیں کہ ’دونوں کمیونٹیز کے درمیان کچھ سیاسی اور انتظامی تعلق موجود ہے۔ تاہم ان کے درمیان بڑھتی ہوئی اجنبیت انھیں مزید دور کر رہی ہے۔‘

اعتماد کی کمی کے نتیجے میں ایک ایسی تقسیم پیدا ہوئی ہے، جس کا حل اب نمائندہ حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔

کوکی کمیونٹی کے الیکس جمکوتھنگ، جن کے اپنے سگے بھائی بھی اس تنازع میں مارے گئے ہیں، نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ نہ صرف خانہ جنگی ہے بلکہ حکومت کے خلاف بھی ایک (لڑائی) ہے۔

’انسرجنٹ کراس فائر: نارتھ-ایسٹ انڈیا‘ کے مصنف، سبیر بھومک کا کہنا ہے کہ ’قبائلی گروہوں کو خودمختاری دینا بحران کو کم کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے شمال مشرقی ریاست تریپورہ کی مثال پیش کی، جہاں ایک تہائی آبادی کو قبائلیوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ریاست کے دو تہائی اراضی پر ’خودمختار ضلع کونسل‘ کے ذریعے اجتماعی طور پر حکومت کرتے ہیں۔

بنلکشمی نیپرم جیسے دیگر لوگ ’ٹروتھ اینڈ ری کنسیلائیشن کمیشن‘ کے قیام پر زور دے رہے ہیں۔

اب بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منی پور مکمل طور پر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لے گا جب تک کہ ’بین المذاہب، بین النسل مکالمے‘ کے لیے سنجیدگی سے پہل نہ کی جائے۔

تاہم سبیر بھومک کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی ابھی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔‘

واضح طور پر منی پور میں امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے۔ دھرن سدوکپم کا کہنا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں زیادہ تر امن دیرپا نہیں تھا۔

یہ ایسا ہی امن تھا جسے ہم ایک بھاری فوجی زون کی صورت میں مسلط امن کہتے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ کوئی امید کی کرن باقی نہیں ہے کیونکہ دونوں فریق ایک طویل تصادم کے لیے مصروف عمل ہیں۔

اس صورتحال کی وضاحت کے لیے لوگ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ناگا اور کوکی کمیونٹیز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو یاد کرتے ہیں جو کم ہونے سے پہلے ایک سال تک جاری رہی۔

امھپل میں ایک اعلیٰ سرکاری ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ تنازع جلد ختم ہونے جا رہا ہے۔ جس وقت تک ہر دو فریق تھک نہیں جاتے یہ لڑائی جاری رہے گی۔۔۔ یا پھر کوئی ایک فریق دوسرے پر غلبہ نہ حاصل کر لے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں