تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، 40 سے زائد افراد لاپتہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی ایک اور کشتی سمندر میں ڈوب گئی ہے۔ ادھر پاکستانی وزیر داخلہ نے تصدیق کر دی ہے کہ گزشتہ ہفتے یونان کے قریب ڈوبنے والی کشتی پر 350 سے زائد پاکستانی سوار تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کا تازہ ترین واقعہ جمعرات 22 جون کو پیش آیا۔ اس واقعے میں 40 سے زائد تارکین وطن لاپتہ ہیں اور ان میں ایک نو زائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کی ترک وطن سے متعلق ایجنسی IOM کے مطابق یہ کشتی تیونس کے ساحلی شہر سفاکس سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں کیمرون، برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والے 46 تارکین وطن سوار تھے۔

آئی اور ایم کے ترجمان فلاویو ڈی گیاکومو کے مطابق اس کشتی کے ڈوبنے کی وجہ طاقتور ہوائیں اور بلند لہریں بنیں: ”بچ جانے والے کچھ لوگوں کو لامپے ڈوسا پہنچایا گیا ہے جبکہ کچھ کو تیونس واپس لے جایا گیا ہے۔‘‘ ترجمان کے مطابق لاپتہ ہونے والوں میں سات خواتین اور ایک شیرخوار شامل ہے جبکہ بقیہ سارے مرد ہیں۔

لامپے ڈوسا، یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کیلئے اہم داخلی مقام

اطالوی جزیرہ لامپے ڈوسا تیونس کے ساحل سے 145 کلومیٹر دور ہے اور یہ بحیرہ روم کو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے سب سے اہم مقامات میں شمار ہوتا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق گزشتہ برس اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد 105,000 تھی جبکہ ان میں سے صرف لامپے ڈوسا پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد 46,000 سے زائد تھی۔

گزشتہ ہفتے ڈوبنے والی کشتی میں 350 سے زائد پاکستانی

گزشتہ ہفتے لیبیا سے روانہ ہونے والی ایک کشتی یونانی ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا جس پر 750 سے زائد تارکین وطن سوار تھے۔ اس واقعے میں جن افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے ان کی 82 ہے، جبکہ 104 کو سمندر سے بچایا گیا۔

پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جمعہ 23 فروری کو اس بات کی تصدیق کی کہ یونانی ساحل کے پاس ڈوبنے والی اس کشتی پر کم از کم بھی 350 پاکستانی شہری سوار تھے۔ رانا ثنا اللہ نے ملکی پارلیمان کو بتایا کہ 14 کو پیش آنے والے اس واقعے میں ڈوبنے والی کشتی پر 700 سے زائد افراد سوار تھے جبکہ اس کی گنجائش 400 افراد کو لے جانے کی تھی۔ وزیر داخلہ کے مطابق اب تک 281 ایسے پاکستانی خاندانوں نے حکام سے رابطہ کیا ہے جن کے پیارے اس کشتی پر سوار تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں