پشاور میں تین دنوں میں اقلیتی برداری پر الگ الگ مقامات پر حملے، ایک شخص ہلاک

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے شہر پشاور میں تین دنوں میں اقلیتی برداری سے تعلق رکھنے والے تین افراد پر الگ الگ مقامات پر حملے ہوئے ہیں جن میں ایک ہلاک اور دو زخمی ہیں۔ ان میں دو سکھ اور ایک عیسائی افسر شامل ہیں۔

پولیس حکام نے بتایا کہ منموہن سنگھ کو سنیچر کے روز پشاور میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا ہے۔ منموہن سنگھ تاجر تھے اور کسی کام سے شہر سے باہر گئے تھے۔ وہ شام کے وقت آٹو رکشہ میں واپس گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی ۔ منموہن سنگھ کی عمر 30 سال تھی اور ان کا ایک چھوٹا بیٹا اور بیوہ رہ گئے ہیں۔

اس واقعہ سے ایک روز پہلے پشاور شہر میں ہی ایک سکھ دوکاندار ترلوگ سنگھ پر بھی اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ اپنی دوکان میں بیٹھے تھے ۔ اس حملے میں ترلوگ سنگھ زخمی ہوئے ہیں۔ انھیں ٹانگ میں گولی لگی ہے۔

گزشتہ روز اتوار کی شام پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن کے قریب علاقے میں نا معلوم افراد نے ایک عیسائی افسر پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ جا رہے تھے۔ قمر مسیح ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس میں تعینات ہیں۔

سکھوں پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے نے قبول کی ہے ۔ اس سے پہلے بھی پشاور میں سکھوں پر حملوں کی زمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہارون رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس ان واقعات کی تفتیش کر رہی ہے اور اس میں ملوث افراد کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مختلف ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اور سکھوں یا دیگر اقلیتی برادری کے علاقوں میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

ان سے جب پوچھا کہ سکھوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طورپر اقلیتی برادری میں سکھوں کی شناخت آسانی سے ہو جاتی ہے یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

سکھ برادری میں خوف؟

پشاور اور دیگر علاقوں میں سکوں پر حملے کے بعد سکھ برادی میں خوف کی یہ حالت ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے پشاور میں سکھوں کی دوکانیں آج تیسرے روز بھی بند ہیں۔

بلبیر سنگھ پشاور میں سیک سکول کے وائس پرنسپل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بیشتر لوگ تجارت سے وابستہ ہیں کسی کی کریانہ مرچنٹ کی دوکان ہے تو کوئی جنرل سٹور یا کاسمیٹکس اور یا حکمت کا کام کرتا ہے۔ اگر ایک روز کام پر نہ جائیں تو گھر میں راشن لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں مرد کام کے لیے جانا چاہتے ہیں لیکن گھروں میں خواتین انھیں کام پر نہیں جانے دیتیں کیونکہ یہ خوف اب بڑھ گیا ہے کہ صبح پر کام پر جا رہے ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شام کو گھر واپس لوٹ کر آئیں گے یا نہیں۔

پشاور میں سکھ کمیوٹی کے لگ بھگ 200 سے 300 خاندان آباد ہیں اور سال 2022 سے اب تک پچاس کے لگ بھگ خاندان ایسے ہیں جو صوبہ پنجاب کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ پنجاب جانے والے سکھوں کے ایسے خاندان بھی ہیں جو بھارت نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن جہاں جان کو خطرہ لاحق ہو تو پھر گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔

بابا جی گرپال سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ سال 2008 کے بعد سے ان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس عرصے میں لگ بھگ 30 حملے ہو چکے ہیں جن میں سکھ کمیونٹی کے لوگ زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔

حالیہ ایک دو سالوں میں ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اکتوبر 2021 میں چارسدہ روڈ پر فقیر آباد تھانے کی حدود میں سکھ حکیم ستنام سنگھ کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2022 میں دو سکھ تاجروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔

سکھ برادری میں خوف؟

پشاور اور دیگر علاقوں میں سکوں پر حملے کے بعد سکھ برادی میں خوف کی یہ حالت ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے پشاور میں سکھوں کی دوکانیں آج تیسرے روز بھی بند ہیں۔

بلبیر سنگھ پشاور میں سیک سکول کے وائس پرنسپل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بیشتر لوگ تجارت سے وابستہ ہیں کسی کی کریانہ مرچنٹ کی دوکان ہے تو کوئی جنرل سٹور یا کاسمیٹکس اور یا حکمت کا کام کرتا ہے ۔ اگر ایک روز کام پر نہ جائیں تو گھر میں راشن لانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں مرد کام کے لیے جانا چاہتے ہیں لیکن گھروں میں خواتین انھیں کام پر نہیں جانے دیتیں کیونکہ یہ خوف اب بڑھ گیا ہے کہ صبح پر کام پر جا رہے ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شام کو گھر واپس لوٹ کر آئیں گے یا نہیں۔

پشاور میں سکھ کمیوٹی کے لگ بھگ 200 سے 300 خاندان آباد ہیں اور سال 2022 سے اب تک پچاس کے لگ بھگ خاندان ایسے ہیں جو صوبہ پنجاب کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں ۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ پنجاب جانے والے سکھوں کے ایسے خاندان بھی ہیں جو بھارت نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن جہاں جان کو خطرہ لاحق ہو تو پھر گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔

بابا جی گرپال سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ سال 2008 کے بعد سے ان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس عرصے میں لگ بھگ 30 حملے ہو چکے ہیں جن میں سکھ کمیونٹی کے لوگ زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔

حالیہ ایک دو سالوں میں ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اکتوبر 2021 میں چارسدہ روڈ پر فقیر آباد تھانے کی حدود میں سکھ حکیم ستنام سنگھ کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2022 میں دو سکھ تاجروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔

سکھ برادری کی اپیل

بلبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ سکھ کمیونٹی کے لیے پاکستان ایک اہم ملک ہے کیونکہ بابا گرونانک کا جنم یہاں ہوا ہے اور ہم پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔

ہم اس سے پہلے قبائلی علاقوں جیسے ضلع خیبر، اورکزئی، کرم ، اور دیگر علاقوں میں رہتے تھے۔ ان علاقوں میں حالات خراب ہوئے تو وہاں اپنا گھر بار کاروبار چھوڑ دیا اور ہم نقل مکانی کرکے پشاور میں آباد ہو گئے۔ اب ہمارے لیے یہ زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ رہا ہے اور ارباب اختیار ہر واقعہ کے بعد یہی کہتے ہیں کہ ہم تفتیش کر رہے ہیں اور جلد ملزمان پکڑے جائیں گے لیکن اب تک کوئی بھی گرفتار نہیں ہوا یا کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں تحفظ دیا جائے اور تاکہ وہ ذہنی سکون سے یہاں رہ سکیں اور اپنا کاروبار کر سکیں۔

سکھ کمیونٹی کے ایک وفد نے آج گورنر خیبر پختونخوا سے ملاقات کی ہے۔ اس وفد میں گرپال سنگھ شامل تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گورنر کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ گورنر نے اس موقع پر سیف سٹی منصوبے کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے اور اقلیتوں کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں