طالبان کے موجودہ دور اقتدار میں ہزار سے زائد شہری ہلاک

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی) اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اگست سن دو ہزار اکیس کے وسط میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک وہاں کیے گئے بہت سے خونریز حملوں میں ایک ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے منگل 27 جون کے روز کہا گیا کہ اگست 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک میں مختلف حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں اس سے پہلے کے برسوں کے مقابلے میں واضح کمی ہوئی ہے۔ تاہم ایسی ہلاکتوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ملک کے مختلف صوبوں میں کیے جانے والے مہلک حملے آج بھی عام شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔

عالمی ادارے کے افغانستان کے لیے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اس سال مئی کے آخر تک وہاں ہونے والی خونریزی میں 1,095 عام شہری ہلاک اور 3,774 زخمی ہو چکے تھے۔

ان اعداد و شمار کے مقابلے میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے قبل سال 2020ء میں ایسے حملوں میں مجموعی طور پر 3,035 افغان شہری ہلاک اور 8,820 زخمی ہوئے تھے۔

تین چوتھائی حملے دیسی ساخت کے بموں کی مدد سے

اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2021ء سے لے کر مئی 2023ء تک افغانستان میں کیے گئے حملوں میں سے تین چوتھائی دیسی ساخت کے بموں سے کیے گئے۔

ان بم دھماکوں میں زیادہ تر عبادت گاہوں، کاروباری مراکز اور تعلیمی اداروں جیسی پرہجوم رہنے والی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

افغانستان کے لیے عالمی ادارے کے امدادی مشن کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تقریباﹰ 21 ماہ پر محیط اس عرصے کے دوران کیے گئے خونریز حملوں میں جو افغان شہری ہلاک ہوئے، ان میں 92 خواتین اور 287 بچے بھی شامل تھے۔

تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ اس عرصے کے دوران یہ رجحان بھی دیکھا گیا کہ خاص طور پر عبادت گاہوں، بالخصوص اقلیتی شیعہ مسلمانوں کی مساجد پر کیے جانے والے دیسی ساخت کے بموں سے حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اسکولوں پر حملوں میں بھی سو کے قریب ہلاکتیں

یو این اے ایم اے کی اس رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ہی افغانستان میں اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی طرف سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا۔ اس بیان کے مطابق تقریباﹰ 1100 شہری ہلاکتوں میں سے کم از کم 95 افراد اس وقت ہلاک ہوئے، جب مختلف اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ تعلیمی ادارے بھی زیادہ تر شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والی ہزارہ نسلی اقلیتی برادری کے تھے۔

افغانستان میں طالبان کے دوسرے دور اقتدار میں کیے جانے والے ان خونریز حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری داعش یا ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کی اس مقامی عسکریت پسند شاخ نے قبول کر لی تھی، جو ‘اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ کہلاتی ہے۔

موجودہ افغانستان میں داعش کی یہی علاقائی شاخ ایک ایسی عسکریت پسند سنی مسلم تنظیم ہے، جو طالبان کی سب سے بڑی حریف شدت پسند تنظیم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں