یوکرین میں روسی فوجیں زخم خوردہ ہیں، شکست خوردہ نہیں، نیٹو ملٹری سربراہ

برسلز (ڈیلی اردو/وی او اے) نیٹو کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار نے پیر کے روز کہا ہے کہ روس کی مسلح افواج ہر چند کہ زخم خوردہ ہیں لیکن کسی بھی اعتبار سے وہ یوکرین میں شکست خوردہ نہیں ہیں۔

انہوں نے یہ بات ایسے میں کہی جب وہ یہ بیان کر رہے تھے کہ اگر ماسکو تصادم کو وسیع کرتا ہے،تو اس سے نمٹنے کے لئے نیٹو کے فوجی منصوبوں میں سرد جنگ کے دور کے بعد سے اب تک کی کون سی سب سے بڑی اصلاحات اور ردو بدل کیا جارہا ہے۔

نیٹو ملٹری کمیٹی کے سربراہ ایڈمرل راب باؤر نے روس کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ک وہ گیارہ فٹ کے نہ ہوں” لیکن وہ یقینًا دو فٹ کے بھی نہیں ہیں۔ لہذا ہمیں کبھی بھی روسیوں اور ان کی واپس پلٹ پڑنے کی صلاحیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئیے۔”

امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے نیٹو کے ہم منصب آئندہ ہفتے لتھوانیا کے دار الحکومت ولنئیس میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں، اتحاد کے منصوبہ بندی کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کی توثیق کرنے والے ہیں۔

نیٹو بطور ایک تنظیم، یوکرین کو ہتھیار یا گولہ بارود فراہم نہیں کرتا ہے۔ اس نے جوہری ہتھیاروں سے لیس روس کے ساتھ ایک وسیع جنگ میں گھسیٹے جانے سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ، روس، یوکرین اور بیلا روس کے نزدیک واقع اپنے رکن ملکوں کی سیکیورٹی کے لئے بہت بڑے پیمانے پر مدد فراہم کر رہا ہے۔

شمال میں ایسٹونیا سے لے کر ، بحیرہ اسود پر رومانیہ تک کوئی چالیس ہزار فوجی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ روزانہ، اس علاقےکی فضاؤں میں تقریباً ایک سو طیارے پرواز کرتے ہیں اور بحیرہ بالٹک اور بحیرہ روم میں ستائیس بحری جنگی جہاز ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ اور اس تعداد میں اضافہ بھی کیا جانے والا ہے۔

اپنےنئے منصوبوں کے تحت، نیٹو کا ہدف یہ ہے کہ تین لاکھ فوجی تیس دن کے اندر اس کے مشرقی بازو کی طرف پہنچنے کے لئے بالکل تیار ہوں۔ ان منصوبوں کے تحت علاقے کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بالائی شمال اور اٹلانٹک کا علاقہ، ایلپس کے شمال میں ایک زون اور اور تیسرا زون جنوبی یورپ میں ہو گا۔

باؤر نے کہا کہ نیٹو کی نئی منصوبہ بندی کوئی سترہ ماہ قبل ولادی میر پوٹن کی جانب سے یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے سے قبل کی روس کی فوجی طاقت کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ نے روسی فوج کو تو بہت کمزور کردیا ہے، لیکن اس کی بحریہ اور فضائیہ کو کمزور نہیں کیا ہے۔

ادھر روس میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں واگنر گروپ کی بغاوت اور اسکے بعد ہونے والے سمجھوتے سے، جس کے تحت بغاوت کے لیڈر یووگنی پریگوزن کو بیلا روس میں پناہ لینے کی اجازت دی گئی، ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا اور پولینڈ میں گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

لتھوانیا کے صدر گیتا ناس نوسیدا نے کہا کہ اگر واگنر گروپ ان کی سرحدوں پر پیشہ ور قاتلوں کو متعین کرتا ہے، تو پڑوسی ملکوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔

خیال رہے کہ ویلنئیس، بیلا روس کی سرحد سے پینتیس کلومیٹر یا بائیس میل دور ہے۔

لتھوانیا اپنی سرزمین پر نیٹو کی مستقل موجودگی چاہتا ہے۔

نیٹو کے اکتیس رکن ملکوں نے گزشتہ ہفتے ایک فورس جینیریشن کانفرنس میں حصہ لیا، جس کا مقصد یہ سمجھنے کی کوشش کرنا تھا کہ روس کے کسی حملے کا جواب دینے کے لئے طویل المدت اور قلیل المدت دونوں صورتوں میں اتحاد کے پاس کتنی تعداد میں افواج اور کتنا سازو سامان ہونا چاہئیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں