کرم: پاراچنار میں اراضی تنازعہ پر شیعہ سنی قبائل میں جھڑپیں پانچویں روز بھی جاری، 16 افراد ہلاک، 100 زخمی

پشاور (بیورو رپورٹ) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹرز پاراچنار کے نواحی علاقے بوشہرہ میں اراضی کے تنازعے پر شیعہ سنی قبائل کے مابین جھڑپ میں ابتک 16 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

پولیس ذرائع کے مطابق پیواڑ پر جنگ بندی کے باوجود حملے جاری ہیں۔ پانچ روز قبل بوشہرہ میں جائیداد کے تنازعے پر دو قبائل کے مابین فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ضلع کے علاقوں بشمول پیواڑ، گیدو، بالش خیل، خار کلے، صدہ اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاوہ مقبل اور کنج علیزئی میں جھڑپیں جاری ہیں جس میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1678776610542219264?t=N6pHZJWQrtyHvUAxPbO65A&s=19

زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاراچنار اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال صدہ لایا گیا جن میں متعدد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ہلاک اور زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔

ضلع کرم میں جھڑپوں کے باعث مرکزی شاہراہ سمیت سڑکوں پر آمد و رفت تقریباً بند ہوگئی ہے اور ضلع میں بنیادی اشیا، ایندھن اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

ایک روز قبل ضلع کرم میں امن و مان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور سمیت مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔

قبائلی عمائدین اور فورسز کے تعاون سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حالات پر قابو پانے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا نے ضلع کرم میں ناخوشگوار صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے 30 رکنی جرگہ تشکیل دے کر دونوں اطراف سے جنگ بندی کے لئے حکومتی کمیٹی کو کرم بھیج دیا۔

محکمہ داخلہ کے مطابق حکومتی کمیٹی کے اراکین دونوں فریقین سے مذاکرات کے لیے کرم پہنچ گئے ہیں جبکہ علاقے میں صورت حال کو قابو کرنے کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کردیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ نے کہا کہ کرم میں تنازع روکنے کے لیے فوج اور ایف سی سے مدد طلب کی گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو زمینوں کے حوالے سے جامع رپورٹ مرتب کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ نے کہا ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال معمول پر آنے تک فوج تعینات رہے گی۔

وفاقی وزیر ساجد طوری بھی قبائل کے مابین فائر بندی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں تاہم حالات خراب ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانیز و انسانی وسائل ساجد طوری نے کہا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت ضلع کرم میں خونریز جھڑپیں رکوانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں۔ امن دشمن عناصر کی سازشوں سے بار بار فائر بندی کے باوجود ضلع کرم کے چاروں اطراف میں جھڑپیں شروع ہوگئیں ہیں۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ساجد طوری کا کہنا تھا کہ وہ قبائل کے مابین جھڑپیں رکوانے کے لئے گزشتہ تین روز سے اپنے حلقے میں موجود ہے ضلعی انتظامیہ اور فورسز کے ساتھ ملکر عمائدین کے تعاون سے جھڑپیں رکوانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، عمائدین اور فورسز کی کوششوں سے تری مینگل اور بالش خیل اور خار کلی کے مابین جاری جھڑپوں کو رکوانے میں کامیاب ہو گئے سیز فائر ہو گئی مگر بدقسمتی سے وہ لوگ جو کرم کے خیرخواہ نہیں ہے انہوں نے دوبارہ جنگ مسلط کیا اور ضلع کرم کے امن کو نقصان پہنچایا۔

وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری سید توقیر شاہ اور الیون کور سے ٹیلیفونک رابطہ جاری ہے اور ضلع کرم کے حالیہ صورتحال سے انہیں آگاہ کیا جارہا ہے۔

ساجد طوری نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے ضلع کرم میں جاری جھڑپوں کو رکوانے کیلئے بروقت اور موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حالیہ خونریز جھڑپوں سے سے ضلع کرم کے امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

درین اثنا ہیومن رائٹس کیشن آف پاکستان نے خونی تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی تنازعات میں عسکریت پسندی میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

کمیشن نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر تمام قبائلی تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو بحال کرنا چاہیے۔

ضلع کرم میں اس سال مئی میں پانچ شیعہ اساتذہ سمیت آٹھ افراد کے قتل کے بعد حالات کشیدہ رہے ہیں۔ واقعات کچھ یوں رپورٹ ہوئے تھے کہ ایک گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی شخص کو قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے گئے تھے کہ شیعہ اکثریتی علاقے میں سنی ڈرائیور کو قتل کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایک سکول کے سٹاف روم میں موجود اساتذہ سمیت سکول کا عملہ موجود تھا جن پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کردی تھی۔

ان واقعات کے بعد علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جہاں سکول کالج اور کاروباری مراکز بند کر دیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں