امریکی شہری سرحد عبور کر کے شمالی کوریا میں داخل،

سیئول + واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) اقوام متحدہ کی کمانڈ نے کہا ہے کہ امریکا کا ایک شہری شمالی کوریا کی انتہائی سیکیورٹی سے لیس سرحد کے دورے کے دوران شمالی کوریا میں داخل ہوا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور رائٹرز کی رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی کمانڈ نے جوائنٹ سیکیورٹی ایریا اور کوریا کے درمیان سرحد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جوائنٹ سیکیورٹی ایریا کے اورینٹیشن دورے پر موجود ایک امریکی شہری نے اجازت کے بغیر ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا میں ملٹری ڈیمارکیشن لائن کو عبور کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس وقت ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا کی حراست میں ہے اور شمالی کوریا کی فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہمارے کورین پبلک آرمی کے ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

جنوبی کوریا کے روزنامہ ڈونگ آ لیبو نے فوج کا حوالہ دیتے ہوئے اس شخص کی شناخت ٹریوس کنگ کے طور پر ہوئی ہے جو امریکی فوج میں پرائیویٹ سیکنڈ کلاس کا سپاہی ہے۔

خبر رساں ادارہ رائٹرز فوری طور پر مذکورہ شخص کی شناخت کی تصدیق نہیں کر سکا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی اپنی سفری ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے امریکی شہریوں کی گرفتاری اور طویل مدتی حراست کے سنگین خطرے کے پیش نظر امریکی شہریوں کے شمالی کوریا میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

اس پابندی کا اطلاق امریکی کالج کے طالب علم اوٹو وارمبیئر کو 2015 میں ملک کے دورے کے دوران شمالی کوریا کے حکام کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد کیا گیا تھا، وہ جیل سے رہائی کے چند دن بعد امریکا واپسی پر کوما میں چلے گئے تھے اور پھر 2017 میں انتقال کو گئے تھے۔

چونکہ 1950 سے 1953 تک جاری رہنے والی کوریا کی جنگ امن معاہدے کے بجائے جنگ بندی پر اختتام پذیر ہوئی تھی تو تکنیکی طور پر شمالی اور جنوبی کوریا اس وقت سے حالت جنگ میں ہیں اور دونوں کی بھاری ہتھیاروں سے لیس سرحد کے درمیان ایک غیر فوجی زون ہے۔

سیئول کے شمال میں جوائنٹ سیکیورٹی ایریا میں دونوں طرف کے فوجی آمنے سامنے ہیں جس کی نگرانی اقوام متحدہ کی کمانڈ کرتی ہے۔

یہ ایک مشہور سیاحتی مقام بھی ہے اور جنوبی کوریا کی جانب روزانہ سیکڑوں سیاح اس علاقے کی سیر کو بھی آتے ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019 میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے پانمونجوم ٹروس ولیج میں ملاقات کی تھی اور یہاں تک کہ وہاں حد بندی کی لکیر کو عبور کرتے ہوئے شمالی کوریا کی سرزمین پر کھڑے ہو گئے تھے۔

عام طور پر دونوں کوریاؤں کے درمیان کوئی شاذ و نادر ہی ملک چھوڑتا ہے لیکن شمالی کوریا میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں جہاں کے باشندے غربت اور جبر سے تنگ آ کر سرحد پار کر کے چین جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آخری بار جوائنٹ سیکیورٹی ایریا میں 2017 میں اس وقت ایک فوجی کی جانب سے ملک چھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور شمالی کوریا کے ایک فوجی نے فوجی جیپ میں سوار کر سرحدی لائن کے قریب پہنچنے کی کوشش کی تھی اور پھر پیدل دوڑتے ہوئے پانمونجوم میں حد بندی کی لائن کو عبور کر لیا تھا۔

اس موقع پر شمالی کوریائی فوجیوں نے اپنے مفرور ہونے والے ساتھی کو روکنے کے لیے متعدد گولیاں ماری تھیں لیکن گھنٹوں کی سرجری کے بعد وہ بچ گیا تھا۔

سنگجی یونیورسٹی میں ملٹری اسٹڈیز کے پروفیسر چوئی گیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ پانمونجوم وہ سب سے زیادہ ممکنہ سائٹ ہے جس کا انتخاب اس امریکی نے شمالی کوریا کو عبور کرنے کے لیے کیا ہو گا کیونکہ یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں سے جوائنٹ سیکیورٹی ایریا کے دورے دوران کوئی فرار کی کوشش کر سکتا ہے۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب دونوں کوریاؤں کے درمیان تعلقات اب تک کی سب سے نچلی سطح پر ہیں، سفارت کاری تعطل کا شکار ہے اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں سمیت ہتھیاروں کی تیاری میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔

سیئول اور واشنگٹن نے جواب میں دفاعی تعاون میں اضافہ کیا ہے اور جدید اسٹیلتھ جیٹ طیاروں اور امریکی اسٹریٹجک اثاثوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔

منگل کو اتحادیوں نے سیئول میں پہلے نیوکلیئر کنسلٹیٹو گروپ کا اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد جوہری تعاون کو بہتر بنانا اور شمالی کوریا کے خلاف فوجی تیاری کو تئیز کرنا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے انڈو پیسیفک کوآرڈینیٹر کرٹ کیمبل نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت جب ہم بات کررہے ہیں تو ایک امریکی جوہری آبدوز بوسان کی بندرگاہ پر پہنچ رہی ہے جو کئی دہائیوں میں امریکی جوہری آبدوز کا پہلا دورہ ہے۔

آخری بار واشنگٹن نے 1981 میں جنوبی کوریا میں اپنی جوہری صلاحیت کی حامل آبدوزوں میں سے ایک کو تعینات کیا تھا۔

واشنگٹن نے اپریل میں جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے سرکاری دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ جزیرہ نما کوریا میں جوہری ہتھیاروں سے لیس بیلسٹک میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت کی حامل آبدوز تعینات کرے گا۔

امریکا کے اس اقدام پر شمالی کوریا کی جانب سے سخت ردعمل آنے کا امکان ہے جو جزیرہ نما کوریا کے ارد گرد امریکی جوہری اثاثوں کی تنصیب روکنے پر زور دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں