سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا میں پہلی مرتبہ کتوں اور بلیوں کے گوشت پر پابندی عائد

جکارتہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) انڈونیشیا کی ایک بدنام زمانہ ’ایکسٹریم مارکیٹ‘ میں کتوں اور بلیوں کے گوشت کی فروخت بند کر دی گئی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی اس مارکیٹ میں چمگادڑوں، چوہوں، سانپوں اور بندروں کا گوشت بھی دستیاب ہوتا ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیوں کے کئی سالہ احتجاج اور دباؤ کے بعد انڈونیشیا کی مشہور ‘ایکسٹریم مارکیٹ‘ میں کتوں اور بلیوں کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اس مارکیٹ میں جانوروں کو ‘انتہائی ظالمانہ‘ طریقے سے کاٹا جاتا تھا۔

سولاویسی جزیرے پر واقع ‘ٹوموہون ایکسٹریم مارکیٹ‘ میں چمگادڑوں، چوہوں، سانپوں اور بندروں کا گوشت بھی فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ پابندی جمعے کے روز نافذ کی گئی ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم گروپ ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل (ایچ ایس آئی) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ”یہ ملک کا پہلا ایسا بازار ہے، جس نے سمجھوتہ کرتے ہوئے کتوں اور بلیوں کا گوشت فروخت نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

جانوروں کے حوالے سے ایک تاریخی معاہد

اس تنظیم نے اس پابندی کو ایک ایسا ”تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے، جو ہزاروں جانوروں کو انسانی استعمال کے لیے موت کے گھاٹ اتارے جانے سے بچائے گا۔‘‘

انڈونیشیا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو اب بھی مقامی روایات اور ثقافت کی وجہ سے کتوں اور بلیوں کے گوشت کی فروخت کی اجازت فراہم کرتا ہے۔ جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق معاہدے پر ٹوموہون شہر کے میئر اور اس مارکیٹ کے تاجروں نے دستخط کیے ہیں۔

ایچ ایس آئی تنظیم کی ڈائریکٹر لولا ویبر کا کہنا تھا، ”اس کے دور رس تنائج سامنے آئیں گے۔ تاجروں، اسمگلروں، کتے چوری کرنے والوں اور انہیں ہلاک کرنے والوں کا وسیع نیٹ ورک مفلوج ہو جائے گا۔‘‘

اس تنظیم کا کہنا تھا کہ اس معاہدے نے ممکنہ طور پر اس جزیرے پر ہزاروں جانوروں کی جانیں بچائی ہیں۔ اس جزیرے پر سالانہ تقریبا ایک لاکھ تیس ہزار کتوں اور بلیوں کا گوشت کے لیے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد انڈونیشیا میں بھی میں ایسی مارکیٹوں کو بند کرنے کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں، جہاں چمگادڑوں اور کتوں وغیرہ کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں