افغانستان میں طالبان نے آلات موسیقی جلانا شروع کر دیے

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی بختار کی طرف سے اتوار کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی مذہبی پولیس نے مغربی صوبے ہرات میں مبینہ طور پر موسیقی کے متعدد آلات جلا دیے۔

طالبان نے 1990ء کی دہائی کے اواخر میں جب وہ آخری مرتبہ اقتدار میں تھے، موسیقی پر پابندی لگا دی تھی۔ عسکریت پسند گروپ نے اب موسیقی کے آلات، جو ان کے بقول نوجوانوں کو گمراہ اور معاشرے کو تباہ کرسکتے ہیں، کو جلانا شروع کردیا ہے۔

افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی بختار نے اتوار کو بتایا کہ طالبان کی مذہبی پولیس نے مغربی صوبے ہرات میں مبینہ طور پر موسیقی کے متعدد آلات جلا دیے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت برائے ‘امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کے صوبائی سربراہ شیخ عزیز الرحمان نے کہا کہ موسیقی ”نوجوانوں کی گمراہی اور معاشرے کی تباہی‘‘ کا باعث بنتی ہے اور لوگ بدعنوان ہو سکتے ہیں۔

طالبان نے 1990ء کی دہائی میں جب آخری مرتبہ افغانستان پر ان کا کنٹرول تھا، غیر مذہبی موسیقی پر پابندی لگا دی تھی۔

اس بارے میں منظر عام پر آنے والی تصویروں میں موسیقی کے متعدد آلات بشمول گٹار، ہار مونیم وغیرہ کو جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور جس جگہ یہ کارروائی کی گئی وہاں طالبان کے اہلکار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

افغانستان میں موسیقی کی قدیم روایتی شکل ایک عرصے سے ہندوکش کی اس ریاست کی ثقافت رہی ہے جو کہ ایرانی اور بھارتی کلاسیکی موسیقی سے متاثر ہے۔

تاہم افغانستان میں اب ایک ایسا پاپ میوزک بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے جس میں الیکٹرانک آلات کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔

کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک دونوں ہی طرح کی موسیقی نے سن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے کے 20 سالوں میں کافی ترقی کی ہے۔

لیکن اگست 2021 ء میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے طالبان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سخت قوانین نافذ کر رہے ہیں۔

افغانستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک جو ایک وقت اپنی ہمہ جہت ثقافتی اور موسیقی کی سرگرمیوں کے لیے کا فی مشہور تھا، کے طلبا اور اساتذہ، طالبان کے کنٹرول کے بعد سے، کلاسوں میں واپس نہیں آئے ہیں۔ بہت سے موسیقار ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے خلاف طالبان کے اقدامات طالبان نے اگست 2021ء میں اقتدار پر دوبارہ کنٹرول کے بعد سابقہ حکمرانی کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند رویہ اپنانے کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی اجازت دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے انتہا پسندانہ نظریات پر مبنی قوانین جسے وہ شرعی قوانین کا نام دیتے ہیں، کے مطابق سخت تر قوانین دوبارہ نافذ کردیے۔ ان قوانین کے تحت سرعام پھانسی دینا، چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنا اور خواتین کی بیشتر ملازمتوں پر بھی پابندی لگا دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

گذشتہ ہفتے کے اوائل میں طالبان نے افغانستان کے تمام بیوٹی سیلونز کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا کیونکہ ان کے بقول یہ اسلام کے مطابق یہ ایک حرام کاروبار ہے اوریہ شادی کی تقریبات کے دوران دولہا کے خاندانوں کے لیے معاشی پریشانیوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں