صدر مملکت عارف علوی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 کی منظوری دیدی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل 2023 کی منظوری دے دی۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 کی منظوری آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تحت دی ہے۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ ’میڈیا خاص طور پر میڈیا ورکرز کو باضابطہ مبارک ہو، پرویز مشرف کی آمریت سے جنم لینے والے پیمرا کے سیاہ قانون کو پیمرا(ترمیمی) بل 2023 کی صورت دستور پاکستان کی جمہوری و بنیادی انسانی حقوق کی حدود میں لے آئے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 19 کو قانون کا حصہ بناکر اظہار رائے کی آزادی یقینی بنادی ہے، دوماہ کے اندر واجبات کی ادائیگی نہ ہونے پر سرکاری اشتہارات کی بندش، پیمرا چیئرمین سے اختیارات کی کونسل آف کمپلینٹس کو منتقلی، پی بی اے اور پی ایف یو جے کے نمائندوں کی کونسل میں شمولیت سمیت ایسے کئی اقدامات اب قانون بن چکے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مشاورت سے تیار ہونے والا یہ متفقہ قانون میڈیا ورکرز اور میڈیا ہاؤسز کی مشترکہ کامیابی ہے، پی آر اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے، ایمینڈ، پی ایف یو جے، آر آئی یو جے، وزارت اطلاعات اور پیمرا کے افسران سمیت تمام احباب کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے راہنمائی، معاونت اور مدد کی، وزیراعظم شہباز شریف، سابق کابینہ، پارلیمان کے تمام ارکان کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا‘۔

اس سے قبل ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 پر صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، اے پی این ایس، پی بی اے، سی پی این ای اور ایمنڈ کے نمائندوں نے ملاقات کی اور اس دوران صدر مملکت نے میڈیا ورکرز اور صحافی برادری کو پیمرا ترمیمی بل پر اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

صدر مملکت نے میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ، پیمرا قانون میں ترامیم متعارف کرانے پر میڈیا برادری کی اجتماعی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ سرکاری اشتہارات الیکٹرونک میڈیا ملازمین کے واجبات کی ادائیگی سے جوڑنے سے ان کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے وفد کے ساتھ قانون سازی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ترمیمی بل سے میڈیا کے قوانین میں بہتری آئی ہے۔

صدر مملکت نے وفد سے کہا کہ میڈیا رضاکارانہ طور پر نوجوانوں کو فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے بارے میں آگاہ کرے کیونکہ نوجوان فیک نیوز سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو خاص طور پر فیک نیوز کے مضمرات کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے، میڈیا بالخصوص سینئر صحافی تعلیمی اداروں اور جامعات کے ساتھ روابط بڑھائیں، سینئر صحافی صحافت کے میدان میں ہونے والی نئی پیش رفت کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کریں۔

صدر مملکت نے معاشرے میں مکالمے اور خیالات کے آزادانہ تبادلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی نئی شکلوں بالخصوص سوشل میڈیا کی حرکیات سمجھنی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اخلاقیات، سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ اور تعمیری استعمال کے بارے میں بتائے۔

اس موقع پر صحافیوں کے وفد نے صدر مملکت کو نئے بل کی مختلف شقوں کے بارے میں بتایا کہ ترمیمی بل سے صحافی برادری کے ساتھ ساتھ میڈیا ملازمین کو فائدہ پہنچے گا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صحافیوں کے وفد نے صدر مملکت کی جانب سے پیمرا ترمیمی بل 2023 کی حمایت اور میڈیا کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل میں دلچسپی لینے پر شکریہ ادا کیا۔

یاد رہے کہ 9 اگست کو پیمرا ترمیمی بل 2023 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا گیا تھا جہاں اس وقت کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے تحریک پیش کی تھی کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 میں مزید ترمیم کرنے کا بل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 فی الفور زیر غور لایا جائے۔

سینیٹ کے اجلاس میں پیمرا ترمیمی بل پر کافی دیر تک بحث ہوئی جس کے بعد اس کی شق وار منظوری دے دی گئی تھی اور بعد ازاں بل کی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے بھی منظوری دے دی تھی۔

واضح رہے کہ 7 اگست کو مریم اورنگزیب نے فوزیہ ارشد کی زیر صدارت ہونے والے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں پیمرا (ترمیمی) بل 2023 واپس لینے کا اعلان کر دیا تھا۔

اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پیمرا کے پرانے سیاہ قانون کو ختم کرنا چاہتے تھے، چار سال اپوزیشن میں رہتے ہوئے میڈیا کے ساتھ کام کیا، مخلصانہ سوچ اور بڑی محنت سے یہ بل تیار کیا تھا، بعض شقوں کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کا احترام کرتے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ جبر، آمریت اور فسطائیت کے خلاف میڈیا کے ساتھ مل کر ہمیشہ جدوجہد کی، ایسا کوئی اقدام نہیں کر سکتے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ ہمیں میڈیا کی آزادی عزیز نہیں، میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز پہلے دن سے مشاورت اور بل کی تیاری کا حصہ رہے، پہلے دن سے یہی کہا تھا کہ متفقہ طور پر ہی بل منظور کرائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بل میں ادھر چھوڑ کر جا رہی ہوں جو حکومت بھی آئے گی وہ بل پر بحث کر لے گی، اگلی حکومت جو بھی آئے بل کو آگے لے کر جانے میں اپنا کردار ادا کروں گی۔

اجلاس میں صحافی تنظیموں کے نمائندوں، صحافیوں اور رپورٹرز نے کھڑے ہو کر بل کی حمایت کا اعلان کیا تھا، کمیٹی ارکان اور صحافیوں کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات پر زور دیا گیا کہ وہ بل واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

پیمرا ترمیمی بل

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل 2023 دو اضافی شقوں کے ساتھ منظور کرلیا گیا تھا جس کے تحت ڈس انفامیشن آن ائر نہ جانے کی یقین دہانی لازمی ہوگی۔

پیمرا ترمیمی بل میں براڈکاسٹر کے لیے شفاف اور غیر جانب دار ریٹنگ اور یہ یقین دہانی لازمی قرار دی گئی ہے کہ کوئی ڈس انفارمیشن آن ائر نہیں کی جاسکے گی، مستند خبر کے زمرے میں حالات حاضرہ، مذہبی امور، قومی مفاد سمیت معاشرے سے متعلق تمام شعبہ جات آئیں گے۔

ٹی وی چینل کے ضابطہ کار میں ’ڈس انفارمیشن‘ نشر نہ کرنے کی شرط شامل کی گئی ہے، ترمیمی بل میں ڈس انفارمیشن کی وضاحت بھی کردی گئی ہے، جس کے مطابق ڈس انفارمیشن سے مراد جان بوجھ کر غلط معلومات دینا ہے۔

بل میں ڈس انفارمیشن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ڈس انفارمیشن سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، سازباز سے تیار کردہ یا جعلی ہو، ایسی خبر ڈس انفارمیشن کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو اور متعلقہ شخص کا مؤقف لیے بغیر دی گئی ہو تو وہ خبر ’ڈس انفارمیشن ’کی تعریف میں شامل ہوگی۔

واضح کیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کا مؤقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طرح اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ دی گئی ہو، اسی طرح مس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوگیا ہو۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل-19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوگی۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں الیکٹرونک میڈیا کے لیے کہا گیا ہے کہ معمول کے پروگرام کے دوران 5 منٹ سے زیادہ کا اشتہار نہیں چلایا جاسکے گا اور معمول کے پروگرام میں دو بریک کے دوران دکھائے جانے والے اشتہارات کا دورانیہ 10 منٹ سے کم نہیں ہوگا۔

بل میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی چینل کے پروگرام کا کنڈٹ ٹمپرڈ لوگو کے ساتھ سوشل میڈیا پر نہیں ڈالا جاسکے گا، الیکٹرونک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد اپنی نشریات میں استعمال کرے گا۔

پیمرا ترمیمی بل میں کہا گیا کہ عمومی ترقی، توانائی، معاشی ترقی سے متعلق مواد بھی نشریات میں شامل کیا جائے گا۔

پیمرا ترمیمی بل 20- اے کی نئی شق میں الیکٹرانک میڈیا کو ملازمین کی بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ بروقت ادائیگی سے مراد الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔

بل کی نئی شق 20- بی کے تحت الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا اورشکایات کونسل کے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے تمام فیصلوں اور احکامات کی پاسداری کا پابند بنایا گیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اشتہارات متعلقہ الیکٹرونک میڈیا کو فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

ترمیم کے تحت براڈ کاسٹ میڈیا کا لائسنس 20 سال کے لیے اور ڈسٹری بیوشن لائسنس 10 سال کی مدت کے لیے کارآمد ہوگا، تاہم نافذالعمل فیس ادا کرنا ہوگی لیکن اس میں سالانہ مجموعی تشہیری آمدن شامل نہیں ہوگی۔

بل میں پیمرا اراکین کی تعداد کے حوالے سے بھی ترمیمی کی گئی ہے، سیکشن 6 میں ترمیم کرکے ارکان کی متعین تعداد ختم کرکے پیمرا اراکین کی تقرری کا اختیار صدر پاکستان کو دیا گیا ہے۔

پیمرا اراکین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بوقت ضرورت چیئرمین پیمرا کے سفارش کردہ ارکان کی تعیناتی ہوگی، یہ ارکان بغیر ووٹنگ کے مقرر ہوں گے اور یہ اعزازی طور پر کام کریں گے۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کے دو ارکان میں سے ایک براڈ کاسٹرز اور دوسرا پی ایف یو جے کا نمائندہ ہوگا، پیمرا کا اجلاس اب وڈیو لنک اور سرکولیشن کے ذریعے بھی منعقد ہوسکے گا۔

ترمیمی بل میں پیمرا کے اختیارات چیئرمین، کسی رکن یا اتھارٹی کے افسر کو تفویض ہوسکیں گے، ان اختیارات میں کیبل ٹی وی کے سوا کسی براڈکاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن کا لائسنس دینے، منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار شامل نہیں ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ عوام، اداروں اور دیگر کی شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں شکایات کونسلز بنائی جائیں گی جو الیکٹرانک میڈیا میں کم ازکم تنخواہ کی حکومتی پالیسی، بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا نفاذ یقینی بنائیں گی۔

شکایات کونسلز الیکٹرونک میڈیا کے خلاف شکایات کی سماعت، اپنی آرا اور سفارشات پیمرا کو ارسا ل کریں گی۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ شکایت کونسل ایک چئیرمین اور 5 ارکان پر مشتمل ہوگی، اس میں کام کرنے والے افراد کی مدت دو سال کے لیے ہوگی۔

بل میں سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے، جس کے مطابق 29- اے کے نئے سیکشن کے تحت 10 لاکھ جبکہ سنگین خلاف ورزی پر ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔

پیمرا کے فیصلوں کے خلاف متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں