فوج کے خلاف تقاریر: ایمان مزاری اور علی وزیر تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر اور انسانی حقوق کی کارکن وکیل ایمان مزاری کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پیر کو ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام کو ان کے خلاف اکسانے جیسے الزامات کے تحت درج مقدمات کی سماعت کی تو استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے دس روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

علی وزیر اور ایمان مزاری کو اسلام آباد کے علاقے ترنول میں جمعے کی شب پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے میں شرکت اور تقریر کے بعد اتوار کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایمان مزاری کے خلاف تھانہ ترنول میں ریاستی اداروں کے خلاف بیان دینے اور لوگوں کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کیا جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان ملزمان نے منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کی دیگر قیادت کے ساتھ مل کر لوگوں کو بغاوت، خانہ جنگی، سول نافرمانی اور مسلح جدوجہد کی ترغیب دی۔

ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مؤکلہ کل (اتوار) پورا دن پولیس کی تحویل میں تھیں مگر ان سے کسی قسم کی کوئی تفتیش نہیں کی گئی جبکہ ان کے گھر پر چھاپے کے دوران ان کا موبائل اور لیپ ٹاپ پہلے ہی ریکور کر لیا گیا ہے۔

انھوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مؤکلہ کے خلاف درج مقدمات میں ایک ایف آئی آر میں ناقابل ضمانت دفعات شامل کی گئی ہیں۔ زینب جنجوعہ نے کہا کہ ایمان مزاری خود ایک وکیل ہیں جو ماضی میں بھی مختلف کیسز میں شامل تفتیش ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوں گی۔

اس موقع پر استغاثہ کے وکیل راجہ نوید نے کمرہ عدالت میں ایمان مزاری کی جلسے میں کی گئی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھا اور کہا کہ انھوں نے ریاست کے خلاف تقریریں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’اصل دہشت گرد جی ایچ کیومیں بیٹھے ہیں اور یہ نعرہ لگایا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔’

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری کے خلاف پہلے بھی اسی نوعیت کا مقدمہ درج ہوا تھا تاہم ان کی جانب سے غیر مشروط معافی کے بعد وہ کیس ختم ہو گیا تھا۔

اس کیس کے تفتیشی افسران نے ایمان مزاری اور علی وزیر کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی انھوں نے ملزمان کی وائس میچنگ کروانی ہے اور فوٹو گرائمیٹری ٹیسٹ کرانا ہے جس کے لیے ملزمان کی تحویل مطلوب ہے۔

ان دلائل کو چیلنچ کرتے ہوئے وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ان کی مؤکلہ گذشتہ 24 گھنٹوں سے زیر حراست ہیں مگر ابھی تک وائس میچنگ یا فوٹو گرائمیٹری ٹیسٹ نہیں کروایا گیا، انھوں نے سوال کیا کہ ‘حراست میں رکھ کر یہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تفتیش کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔’

ایمان مزاری کی وکیل کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ روز بھی تھانے گئیں مگر ان کی مؤکلہ سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔ انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کی مؤکلہ کل لاک اپ میں بے ہوش ہو گئی تھیں۔

ایمان مزاری کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ علی وزیر نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ ‘ہمیں نگران حکومت نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے سامنے نہ بیٹھیں، ہمیں کہا گیا کہ آپ ڈی چوک کے بجائے ترنول میں جلسہ کریں جس پر ہم متفق ہوئے۔جوں ہی جلسہ ختم ہوا تو نگراں وزیر داخلہ نے ٹویٹ کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا اور مجھے فون بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ جلسے کے دوران انھوں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔‘

فریقین کے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ ہی دیر بعد سنا دیا گیا اور دونوں ملزمان کو تین دن کے لیے پولیس کے حولے کر دیا گیا۔

’وہ ایمان کو گھسیٹ کر باہر لے گئے‘

اپنی بیٹی کی گرفتاری کے بعد اتوار کو اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی سابق رکن اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے سلسلہ وار پیغامات میں کہا تھا کہ ’خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد ہمارے گھر کا دروازہ توڑ کر میری بیٹی کو لے گئے۔‘

’وہ ہمارے سکیورٹی کیمرے، لیپ ٹاپ اور اس کا فون بھی لے گئے، جب ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ کس لیے آئے ہیں، تو وہ ایمان کو گھسیٹ کر باہر لے گئے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’میری بیٹی رات کو سونے والے کپڑوں میں تھی اور اس نے ان سے کپڑے تبدیل کرنے کا کہا لیکن وہ اسے بنا کسی وارنٹ گرفتاری یا قانونی کارروائی کے گھیسٹتے ہوئے لے گئے ہیں۔ یہ ریاست کی فاشزم ہے، یاد رہے کہ گھر میں ہم صرف دو خواتین رہتی ہیں۔ لہذا یہ ایک اغوا ہے۔‘

ایمان مزاری کی گرفتاری کے طریقہ کار اور پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گذشتہ دو روز سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایمان مزاری کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے اسلام آباد پولیس مبینہ طور پر بغیر وارنٹ گھر میں داخل ہوئی یہ ناقابل قبول ہے۔

’یہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ریاست کی طرف سے منظور شدہ تشدد کے ایک بڑے، زیادہ تشویشناک منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘

اس نے مطالبہ کیا کہ ایمان مزاری کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

سماجی کارکن ماروی سرمد نے اپنے ٹویٹ میں ایمان مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ غیر قانونی عمل ہے۔ وارنٹ کے بغیر توڑ پھوڑ کر کے گھر میں داخل ہونا، دو بغیر اسلحے کے خواتین کو ہراساں کرنا، ایک قانون کی قانون کی پاسداری کرنے والی شہری کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر اغوا کرنا۔

’وہ ملک کے قانون کی اتنی بے توقیری کے ساتھ پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں۔ ناقابل قبول۔‘

محمد تقی نے اپنی ٹویٹ میں گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پی پی پی اور پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے منظور کی گئی نئی ترامیم کے ساتھ ریاستی غنڈوں کے پاس حقوق کے محافظوں کو ہراساں کرنے کے بے لگام اختیارات آ گئے ہیں۔‘

مینا گبینا نے ٹویٹ کیا کہ ’آپ جتنا زیادہ لوگوں کو اغوا کریں گے، اتنے ہی لوگ ریاستی اغوا کے خلاف احتجاج کے لیے نکلیں گے۔

’آپ جتنی زیادہ دہشت گردی کریں گے، اتنے ہی زیادہ لوگ آپ کو دہشتگرد کہیں گے۔ یہ سمجھنا کتنا مشکل ہے؟‘

صارف عائشہ رزاق نے ٹویٹ کیا کہ ’ایمان مزاری اور علی وزیر کی گرفتاریاں خاص طور پر ستم ظریفی اور پریشان کن ہیں کیونکہ انسانی حقوق کے لیے وزیر اعظم کی نئی مشیر مشعال ملک ہیں، جو کشمیر میں آزادی پسند رہنما یاسین ملک کی اہلیہ ہیں جنھیں انڈین فورسز نے اغوا کیا۔‘

یاد رہے کہ ماضی میں پنجاب پولیس کی جانب سے شریں مزاری کو گرفتار کیے جانے پر ایمان مزاری نے اس کا الزام سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر عائد کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس پر فوج کی جیگ برانچ نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے یہ مقدمہ ختم کروایا تھا۔

دوسری طرف قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے سابق رکن اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر بھی گذشتہ دور حکومت میں زیر عتاب رہے اور متعدد مقدمات میں ڈیڑھ برس سے زائد عرصے تک جیل میں قید رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں