پاکستان میں کالعدم تنظیمیں پھر سے سرگرم کیوں ہو رہی ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور تحریک لبیک پاکستان کی سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر بڑھ رہی ہیں، جس پر کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔

ماضی میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان اور دوسرے کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ریاست ان کی کارروائیوں کو نظرانداز کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ جڑانوالا میں حالیہ حملے کے بعد ملک کے طول و عرض پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ جو تنظیمیں معاشرے میں نفرت کو پروان چڑھا رہی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلا رہی ہیں، ان کو کیوں کھلم کھلا اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جا رہی ہے؟

خیال کیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے حال ہی میں توہین مذہب کے قانون میں ترمیم سے ان تنظیموں کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ ایک بار پھر بہت متحرک ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔ اس ترمیم کے پاس ہوتے ہی سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان اور دوسری مذہبی تنظیمیں ایک بار پھر سرگرم عمل ہو گئی ہیں۔

دوسری طرف تحریک لبیک کے کارکنان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ پورے ملک میں مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں اور ملک کی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی دھمکیاں دے رہے ہیں، جب کہ ریاست ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔

کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ تنظیمیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کا بین الاقوامی امیج متاثر ہوتا ہے، کیوں قانون کے گرفت میں نہیں آتیں۔

کئی مبصرین کا دعوی ہے کہ اگر ریاست چاہے تو ان تنظیموں کو آرام سے لگام دی جا سکتی ہے کیونکہ ریاست کی طاقت کے سامنے کوئی بھی تنظیم ٹک نہیں سکتی۔

واضح رہے کہ ماضی میں جب تحریک لبیک پاکستان نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا، تو اس کے سرپرست اعلی پیر افضل قادری کو سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا تھا جبکہ تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے بھی اپنے سخت لہجے کو بہت نرم کر لیا تھا۔ یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں جب تحریک لبیک فرانس کے حوالے سے سخت نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کر رہی تھی، تو بالواسطہ طور پر اسے پیغام بھیجا گیا کہ کسی کو ریاستی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔

پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسند تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والے احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ ریاست ان کی کارروائیوں سے صرف نظر کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ریاست کے خیال میں اگر انتہا پسند تنظیمیں قومی سیاست آنا چاہیں، تو انہیں آنا چاہیے تاکہ وہ انتہا پسندانہ سرگرمیاں تر ک کر سکیں۔ اسی لیے ان تنظیموں کی کارروائیوں سے صرف نظر کی جا رہی ہے۔‘‘

احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق یہ تنظیمیں یہ دلیل دیتی ہیں کہ اگر جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی مذہبی سیاست کر سکتی ہیں، تو انہیں بھی مذہبی سیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

سیاسی خلا اور مذہبی تنظیمیں

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی لگا کر اور ایم کیو ایم لندن کی سرگرمیوں کو روک کر ریاست نے ایک سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور اس خلا کومذہبی تنظیموں کے ذریعے پر کیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم شاہد رضا کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تنظیموں کی کارروائیاں اس وقت تک چلتی رہیں گی، جب تک اسٹیبلشمنٹ یہ عہد نہ کر لے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہے گی اور سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ماضی میں بھی اس طرح کی تنظیموں کو ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں لا کے کھڑا کیا گیا، جس سے معاشرے کو شدید نقصان ہوا اور معاشرے میں مذہبی منافرت پھیلی اور اب بھی اسٹیبلشمنٹ ان تنظیموں کو لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان کو کھڑا کیا جا سکے۔‘‘

شاہد رضا کے مطابق تاہم اسٹیبلشمنٹ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ عوام ان تنظیموں پہ بھروسہ نہیں کرتے۔

’اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں سیکھا‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئر پرسن زہرہ یوسف کا خیال ہے کہ ریاست نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور ان تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنے کا عمل معاشرے کو زبردست انتشار سے دوچار کرے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ” تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ حالیہ جڑانوالہ والے واقعے میں یہ تشویش ناک بات سامنے آئی ہے کہ چرچ پہ حملہ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد 10 سے 15 سال کے بچوں کی ہے۔ یہ بہت خوفناک بات ہے اور بنیادی طور پر ریاست کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت اس نے مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کی۔‘‘

زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس میں سیاست دانوں کا بھی کردار ہے، ”انہوں نے پارلیمنٹ میں توہین مذہب قانون میں جو ترمیم کی ہے، اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ فرقہ وارانہ اور مذہبی حوالے سے پہلے ہی ملک تباہی کے دہانے پر ہے اور اب اس طرح کی تنظیموں کی سرپرستی، وہ بھی انتخابات سے پہلے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ریاست ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لئے کھڑا کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے معاشرے کے لیے خطرناک نتائج ہوں گے۔‘‘

سیاست دان بھی ذمہ دار ہیں

عام تصور کیا جاتا ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ ہی ان تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہے لیکن احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے سیاسی جماعتیں بھی قصور وار ہیں، ” توہین رسالت اور توہین مذہب کا ایسا معاملہ ہے کہ جس کے حوالے سے کوئی سیاسی جماعت کوئی اصولی موقف اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور جب بھی انتخابات آتے ہیں تو وہ تحریک لبیک پاکستان اور دوسری تنظیموں کے ووٹ بینک کو دیکھتے ہوئے ان سے سودے بازی کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اب بھی سیاسی تنظیمیں یہی کریں گی، جس کی وجہ سے ان تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں