روس نے ’بغاوت‘ کرنیوالے یوگینی پریگوژن کا طیارہ مار گرایا، ویگنر گروپ کے سربراہ سمیت 10 افراد ہلاک

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روس کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ ایک نجی طیارے کے حادثے میں اس پر سوار تمام دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور روس کے مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن کا نام بھی اس طیارے کے مسافروں میں شامل تھا۔

ویگنر وہی گروپ ہے جس نے دو ماہ قبل روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف ناکام مسلح بغاوت کی تھی اور اس آپریشن کی قیادت پریگوژن ہی کر رہے تھے۔

ویگنر سے منسلک ٹیلی گرام چینل گرے زون پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک ایمبریئر طیارے کو ماسکو کے شمال میں ٹیور کے علاقے میں روس کے فضائی دفاعی نظام نے مار گرایا ہے۔

ماسکو سے سینٹ پیٹرزبرگ جانے والے اس نجی طیارے میں سات مسافر اور عملے کے تین افراد سوار تھے۔

گرے زون نے کہا کہ مقامی باشندوں نے حادثے سے پہلے دو دھماکوں کی آوازیں سنی اور فضا میں دھویں کی دو لکیریں دیکھی تھیں۔

طاس نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ طیارے کے زمین سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی، اس کا مزید کہنا ہے کہ جہاز سے آٹھ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ طیارہ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت تک ہوا میں تھا۔

62 سالہ پریگوژن نے 23 اور 24 جون کو روسی صدر کے خلاف مسلح بغاوت کی سربراہی کی تھی اور یوکرین سے اپنے جنگجوؤں کو منتقل کیا اور روسی شہر روستو آن ڈون پر قبضہ کیا اور ماسکو کی طرف پیش قدمی کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ان کا یہ اقدام یوکرین کے تنازعے پر روسی فوجی کمانڈروں کے ساتھ مہینوں کی کشیدگی کے بعد سامنے آیا تھا۔

اس تنازعے کو ایک معاہدے کے ذریعے حل کیا گیا جس نے ویگنر کے جنگجوؤں کو بیلاروس جانے یا روسی فوج میں شامل ہونے کی اجازت دی۔

پریگوژن نے خود بیلاروس منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن وہ بظاہر آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے میں کامیاب رہے ۔ وہ اس کے بعد روس میں دیکھے گئے اور مبینہ طور پر انھوں نے افریقہ کا دورہ بھی کیا۔

روس میں حکومت کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم امریکہ میں قومی سلامتی کے امور کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا ہے کہ اگر پریگوژن کی روسی صدر پوتن کے ساتھ تاریخ کو مدِنظر رکھا جائے تو ان کی ممکنہ ہلاکت حیران کن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں طیارے کی تباہی کی اطلاعات ملی ہیں اور اگر ان کی تصدیق ہو جاتی ہے تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔‘

یوگینی پریگوزِن کے سفر کا آغاز

یوگینی پریگوزن کا تعلق ولادیمیر پوتن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہے۔ سنہ 1979 میں انھیں پہلی بار کسی جرم کے لیے سزا سنائی گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 18 سال تھی اور انھیں چوری کے الزام میں ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی۔

دو سال بعد ڈکیتی اور چوری کے الزام میں انھیں تیرہ سال قید کی سزا سنائی گئی، جن میں سے نو سال یوگینی پریگوزِن نے سلاخوں کے پیچھے گزارے۔

جیل سے رہائی کے بعد پریگوزِن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہاٹ ڈاگ فروخت کرنے والے سٹالوں کا ایک کاروبار شروع کیا۔ کاروبار اچھا چلا اور چند سال کے اندر 1990 کی دہائی میں، پریگوزِن شہر میں مہنگے ریستوران کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہیں سے انھوں نے سینٹ پیٹرزبرگ اور پھر روس کی اعلیٰ اور طاقتور شخصیات کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کیا۔ پریگوزِن کا ایک ریستوراں، جسے نیو آئی لینڈ کہا جاتا ہے، ایک کشتی تھی جو دریائے نیوا میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر چلتی تھی۔

ولادیمیر پوتن کو یہ ریستوران اتنا پسند آیا کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے غیر ملکی مہمانوں کو وہاں لے جانے لگے اور غالباً یہی وہ مقام ہے جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔

پریگوزِن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ولادیمیر پوتن نے دیکھا کہ مجھے معززین کو خود پلیٹس پیش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ جاپانی وزیر اعظم یوشیرو موری کے ساتھ آئے تھے۔‘

یوشیرو موری نے اپریل 2000 میں ولادیمیر پوتن کی حکومت کے بالکل شروع میں سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا تھا۔پوتن نے پریگوزِن پر اتنا بھروسہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ سنہ 2003 میں نیو آئی لینڈ پر انھوں نے اپنی سالگرہ منائی۔

کئی سال بعد، پریگوزِن کی کیٹرنگ کمپنی ’کونکورڈ‘ کو کریملن کو کھانا فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، جس سے انھیں ’پوتن کے شیف‘ کا لقب ملا۔ پریگوزِن سے وابستہ فرموں نے ملٹری اور سرکاری سکولوں سے کیٹرنگ کے منافع بخش ٹھیکے بھی حاصل کیے۔

ویگنر گروپ کیا ہے؟

سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی۔

اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھا۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرائے کے اس گروہ نے بربریت کے لیے خوفناک شہرت حاصل کی۔ ویگنر کے ارکان پر الزام ہے کہ انھوں نے نہ 2017 میں ایک شامی قیدی کو ہتھوڑے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کا سر قلم کیا اور پھر اس کے جسم کو آگ لگا دی۔

اگلے سال وسطی افریقی جمہوریہ میں ویگنر کی موجودگی کی تحقیقات کے دوران تین روسی صحافی مارے گئے۔

2022 میں ویگنر پر ایک بار پھر ایک شخص کو اس شبہ میں ہتھوڑے سے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا کہ اس نے یوکرین میں گروپ کو ’دھوکہ دیا‘۔

یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے ویگنر کو دہشتگرد گروپ کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد، پریگوزِن نے دعویؤ کیا کہ انھوں نے سیاستدانوں کو خون آلود ہتھوڑا بھیجا تھا۔

برسوں تک پریگوزِن نے ویگنر سے کسی قسم کے روابط رکھنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ان لوگوں پر مقدمہ بھی چلایا جنھوں نے مشورہ دیا کہ انھوں نے ایسا کیا لیکن پھر ستمبر 2022 میں پریگوزِن نے کہا کہ انھوں نے 2014 میں گروپ قائم کیا تھا۔

امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے ویگنر پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے روس میں کام کرنے کی اجازت ہے حالانکہ وہاں کا قانون کرایے کی فوج کی سرگرمیوں پر پابندی لگاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں