شام میں لاپتہ قیدیوں کی تلاش جس کیلئے انٹیلیجنس اہلکار مڈل مین بن کر رشوت لیتے ہیں

شام (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران شام کے جیلوں میں ہزاروں افراد ’غائب‘ ہو چکے ہیں۔ ان کے خاندانوں کو مایوس کن صورتحال میں چھوڑ دیا گیا ہے، وہ اپنے پیاروں کے بارے میں کسی بھی معلومات کے لیے لوگوں، حکومت اور سیکورٹی اہلکاروں کو بڑی رقم ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اکثریت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

شمالی استنبول کی ایک سڑک کے قریب ایک شامی خاتون ملک سنہ 2022 میں اپنے دو نوجوان بیٹوں کی گرفتاری کو یاد کرتی ہیں۔

ان کا سب سے بڑا بیٹا محمد 19 سال کا تھا اور شامی فوج میں تھا اور اسے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ہی محلے میں احتجاج کرنے والوں پر گولی چلائے۔ لیکن وہ یہ کرنے کے بجائے بھاگ گئے اور پھر سکیورٹی فورسز نے اس فارم ہاؤس پر چاپہ مارا کر انھیں گرفتار کر لیا جہاں وہ چھپے ہوئے تھے۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد ان کے دوسرے بیٹے ماہر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ’وہ 15 سال کا تھا انھوں نے سکول سے اسے گرفتار کیا کیونکہ اس کے اس کا بھائی منحرف ہو گیا۔‘

اس دن کے بعد ملک نے ماہر اور محمد دونوں کو دوبارہ نہیں دیکھا لیکن وہ انھیں ڈھونڈنے کی بار بار کوشش کرتی ہیں۔ انھیں جو کچھ بھی معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بڑی رقم حاصل کر کے حاصل کی ہیں۔

زیادہ تر معاملات میں یہ ادائیگیاں شامی حکام کے ارکان کے لیے کام کرنے والے، یا ان سے تعلق رکھنے والے مڈل مین کو کی گئیں۔

کئی سال تک ملک ایک وکیل کے ساتھ کام کر رہی تھیں جس نے انھیں ان کے بیٹے خاص طور پر ماہر کے متعلق معلومات کا وعدہ کیا تھا۔ جب بھی ان کی ملاقات ہوتی تو وکیل ان سے مڈل مین یا چیل کے افسران کو دینے کے لیے پیسے مانگتا۔

ان سالوں کے دوران ملک نے وکیل کو 20 ہزار ڈالرز دیے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان کا اب لگتا ہے کہ لوگوں نے انھیں غلط امید دی اور وہ ان سے جھوٹ بولتے تھے۔

وہ کہتی ہیں ’یہ ایسے ہے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ انھوں نے اپنے بچے کو ڈھونڈتی ہوئی ماں کے جذبات کا استحصال کیا۔‘

سنہ 2017 میں کئی مہینے قید ہونے کے بعد ملک نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے رمیز کے ساتھ شام کو خیر باد کہہ دیا اور ترکی میں نئی زندگی کا آغاز کیا۔

ان کے گراؤنڈ فلور پر موجود اپارٹمنٹ میں ہر طرف ان کے دو لاپتہ بیٹوں کی تصویریں ہیں۔

ملک کی عمر اب 50 کے پیٹے میں ہے ان کے کے سرخ بال ہیں، ان کے چہرے پر ایک بڑی مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک ہے۔ لیکن اس سب کے پیچے غم ہے۔

ان کی کہانی منفرد نہیں ہے۔ کئی شامی لوگ اپنے پیاروں کی کھوج میں بہت سارا پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔

ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ اگر کچ کروانا ہے تو رشوت ہی واحد طریقے ہے یہاں تک کہ ان لوگوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جو لاپتہ ہیں یا انھیں رہا کروانے کے لیے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ کہ کبھی کبھار کام ہو جاتا ہے۔

موت سے واپسی

شام کی خانہ جنگی کا آغاز سنہ 2011 میں ہونے والے پر امن مظاہروں سے ہوتا ہے جب تبدیلی کے لیے لوگ سڑکوں پر آ گئے تھے۔ لیکن صدر بشار الاسد کی حکومت نے ان مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے دوران ہزاروں افراد کو قتل اور گرفتار کیا تھا۔

محمد عبدل سلام ان مظاہرین میں سے ایک تھے۔ انھیں سنہ 2012 میں ادلب کے محلے میں ایک چوکی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ چوکی کے اہلکار نے انھیں کہا تھا کہ ان سے صرف پانچ منٹوں کے لیے سوال جواب کیے جائیں گے۔

انھیں شام کے دارلحکومت دمشق سے 30 کلومیٹر دور شمال میں واقع صیدنایا جیل میں قید کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

ایک ایسا وقت آیا تھا کہ انھیں قید میں رکھنے والو کو لگا کہ وہ زخموک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں انھوں نے محمد عبدل سلام کو ایک ایسے کمرے میں منتقل کر دیا جہاں وہ لاشیں رکھتے تھے اور ان پر نمک لگایا گیا تھا تاکہ ان سے بد بو نہ آئے۔

انھوں نے بتایا ’جب میں ہوش میں آیا میں نے دائیں بائیں دیکھا اور میں نے لاشوں کو محسوس کیا۔‘

جب صیدنایا جیل کے سکیورٹی اہلکاروں کو یہ معلوم ہوا کہ محمد زندہ ہیں تو انھیں نکال کر واپس ان کے قید خانے میں انھیں منتقل کر دیا۔

محمد کے اہل خانہ کو سنہ 2014 میں ان کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ محمد دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کے والد نے یہ ماننے سے انکار کر دیا اور ان کی تلاش جاری رکھی۔ مختلف مڈل مین کے ذریعے وہ ایک ایسے خاندان تک پہنچے جن کے صدر بشار الاسد کے ساتھ رابطے تھے اور اس طرح ایک معاہدہ ہوا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بازیابی کے لیے ان کے والد کو 40 ہزار ڈالر جمع کرنے پڑے۔ انھیں ان کے خاندان کی زمینیں فروخت کرنا پڑیں لیکن 2017 میں محمد آزاد ہو گئے۔ ’پانچ منٹ‘ پانچ سال تک ختم نہ ہوئے۔ اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ استنبول میں رہتے ہیں۔

بد قسمتی سے محمد کے والد اپنے بیٹے کو آزاد دیکھنے سے پہلے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔

صیدنایا جیل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں شام میں لاپتہ افراد کے بارے میں ایک آزاد ادارہ قائم کرنے کی قرارداد منظور کی ہے تاکہ ان کا پتہ لگایا جا سکے۔

دریں اثنا ایسی تنظیمیں منظر عام کر آگئی ہیں جو لاپتہ ہونے والوں کے اہلخانہ کے ساتھ کام کر تی ہیں کیسے کہ ’اسوسی ایشن آف ڈیٹینیز اینڈ مسنگ ان صیدنایا (اے ڈی ایم ایس پی)۔‘

تنظیم کے شریک بانی ریاض اولر ہیں وہ ایک چھوٹے قد کے پتلے سے داڑھی والے مرد ہیں، وہ تُرک ہیں اور انھوں نے کئی سال صیدنایا جیل میں قید گزارے۔

1996 میں وہ 19 سال کے تھے اور شام میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب انھیں گرفتار کیا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے دوست کو ایک بھیجے جانے والے خط میں حکومت پر تنقید کی تھی۔

بہت ساروں کی طرح ریاض سسٹم میں غائب ہو گئے اور ان کے اہلخانہ کو 15 سال تک ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا۔

انھوں آخرکار 21 سال کی قید کے بعد چھ سال قبل رہائی ملی تھی۔ انھوں نے ایک ساتھی قیدی کے ساتھ مل کر اے ڈی ایم ایس پی تشکیل دی تاکہ صیدنایا میں قید لوگوں کے گھر والوں کی مدد کی جا سکے۔

انھوں نے سابق قیدیوں کے انٹرویو کرنا شروع کیے۔ ریاض بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ان سے پوچھا ’آپ کے ساتھ کون تھا؟‘

ریاض نے سابق قیدیوں کو ہدایت دی کہ وہ دوسروں سے سنے ہوئے نام انھیں نہ بتائیں بلکہ ان لوگوں کے بارے میں بتائیں جنھیں انھوں نے خود دیکھا۔ ریاض اور ان کے دوست نے یہ معلومات ایک ڈیٹا بیس میں جمع کی اور اسے متاثرین کی جانب سے فراہم کردہ لاپتہ شامی افراد کی فہرست سے چیک کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ناموں کا موازنہ شروع کیا۔۔۔ اور ہم نے خاندانوں کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ ان کے بچوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘

ریاض اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے پاس آنے والے خاندانوں نے یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے بڑی رقوم ادا کی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو اپنے گھر فروخت کرنا پڑے۔

ادارے نے تفصیلی مطالعہ کیا کہ خاندانوں نے امریکی ڈالروں میں کتنی رقوم ادا کیں۔ انھوں نے اوسط ادائیگی کا حساب لگا کر اسے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ لاپتہ افراد کی تعداد (ایک لاکھ) سے ضرب دی۔ 2011 سے 2020 کے دوران کل رقم 900 ملین ڈالر بنتی ہے۔

ریاض اور ان کی ٹیم خاندانوں کے لیے ایسی ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں جن میں انھیں بتایا جاتا ہے کہ کیسے مڈل مین ان کے ساتھ جعلسازی میں ملوث ہیں۔ وہ ہمیں ایسی دستاویزات دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جعلی ہیں۔ ’اس پر لوگو (نشان) ہے۔ شام میں کسی بھی انٹیلیجنس برانچ کا لوگو نہیں۔‘

جعلسازی کے دوسرے طریقوں کی نشاندہی اتنی آسان نہیں۔

ریاض نے ہمارا رابطہ قادری احمد بدلی سے کرایا جو ادلب میں رہتے ہیں اور اپنے لاپتہ بھائی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کے بھائی کو 2013 کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

قادری کہتے ہیں کہ کچھ ہفتے قبل فیسبک پر کسی نے پوسٹ کیا کہ صیدنایا جیل سے قیدی رہا ہوئے ہیں جن تک وہ لوگوں کو پہنچا سکتے ہیں۔

قادری کہتے ہیں کہ ’ہم نے ان سے رابطہ کیا، انھوں نے میرے بھائی سے متعلق معلومات دی جو کسی کے پاس نہیں تھی۔ انھوں نے ان کے ٹیٹو کی بھی نشانی بتائی۔‘

سابق قیدی نے انھیں وکیل سے ملوایا اور قادری کے بھائی کی رہائی یقینی بنانے کے لیے 1100 ڈالر کا مطالبہ کیا۔

خاندان نے 700 ڈالر کی ڈاؤن پیمنٹ کی مگر اس کے بعد وکیل اور سابق قیدی دونوں غائب ہوگئے اور فون پر نمبر بلاک ہو گئے۔

10 روز بعد انھیں قادری کے بھائی کا سرکاری ڈیتھ سرٹیفیکیٹ موصول ہوا جن کی موت صیدنایا میں 2014 کے دوران ہوچکی تھی۔

مڈل مین

ریاض نے کہا کہ سکیورٹی اور انٹیلیجنس سروسز میں کام کرنے والے بعض لوگ بطور مڈل مین کام کر رہے ہیں اور معلومات دینے کی پیشکش کرتے ہیں۔

ایک شامی وکیل نے بھی یہی بات بتائی جو حال ہی میں لبنان منتقل ہوگئے ہیں۔

شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’انسداد دہشتگردی کی عدالت‘ میں 10 سال تک کیسز دیکھے ہیں۔ ان میں شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار شہریوں کے مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ اس عدالت کو 2012 کے ایک صدارتی حکم سے قائم کیا گیا اور اس کے حکام کی تعیناتی سکیورٹی فورسز کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ عدالت ’سوشل میڈیا پر کچھ لائیک کرنے پر بھی کارروائی کر سکتی ہے۔‘

عدالت سے ملزمان کو صیدنایا منتقل کیا جاتا ہے، اگر وہ پہلے سے وہاں قید نہیں۔

وکیل کے مطابق اس عدالت کو ’لاکھوں کی عدالت‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ادھر پیسے کئی ہاتھوں سے گزرتے ہیں۔ ’شامی حکومت میں بدعنوانی اور رشوت رچ بس گئے ہیں۔ حکومت کے کسی بھی حصے کو رشوت دی جاسکتی ہے۔‘

وکیل نے کہا کہ شامی حکام آپس میں پیسے بانٹ لیتے ہیں۔ ’بعض اوقات اعلی حکام بھی پیسے میں اپنا حصہ لیتے ہیں۔‘

وکیل نے گذشتہ ایک دہائی متاثرین کے لاپتہ رشتہ داروں کی مدد میں گزاری ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے جیل میں کئی قیدیوں کو ٹریس کیا اور رہائی میں مدد کی۔

تاہم ثنا (فرضی نام) جیسے کچھ لوگوں کے کیسز میں ٹریس کرنا ممکن نہ ہوسکا۔

2012 کے ایک گرم روز دمشق میں 20 سکیورٹی اہلکاروں نے ان کے گھر چھاپہ مارا اور ان کے بیٹے، شوہر اور بھائی کو حراست میں لیا۔

ثنا کو کئی لوگوں نے پیسوں کے بدلے معلومات دینے کی پیشکش کی۔ ایک موقع پر خاندان نے 20 ہزار ڈالر بھرے مگر کچھ ہاتھ نہ لگا۔

وکلا کی مدد سے وہ ہر ماہ پولیس کے ڈیتھ ریکارڈ کو چیک کرتی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا ان کے خاندان کے لوگ اس فہرست میں موجود ہیں۔

ان کے پاس اپنے خاندان کے لوگوں کی کئی تصاویر ہیں۔ صبح کافی بنا کر وہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ دروازے پر دستک ہوگی اور سب واپس آ جائیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں صرف یادوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں۔ ان کی تصاویر یہیں ہیں۔ میں ان سے بات کرتی ہوں۔ میں انھیں روز صبح گڈ مارننگ کہتی ہوں، چاہے لوگ مجھے پاگل کہیں۔

’شاید یہ سوچ کر مجھے امید ملتی ہے اور اپنی زندگی جاری رکھ پاتی ہوں۔‘

ہم نے اس رپورٹ کے لیے شامی حکومت سے رابطہ کیا مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں