کرم: پاراچنار میں سی ٹی ڈی اور عسکریت پسند تنظیم کے درمیان جھڑپ، مبینہ خودکش حملہ آور زخمی

اسلام آباد (ش ح ط) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار میں عسکری تنظیم اور سی ٹی ڈی کے درمیان ایک جھڑپ میں ایک شدت پسند زخمی ہوگیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق یہ واقعہ بروز منگل کو زیڑان روڈ اپر کرم کے مقام پیش آیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق عسکری تنظیم زینبیون کے عابد المعروف تھران طوری ہمراہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ چار گاڑیوں میں مسلح شہر کے اندر داخل ہوگئے تھے جب قریبی چیک پوسٹ پر پولیس نے انہیں روکنے کا اشارہ کیا مگر عابد المعروف تھران طوری ہمراہ ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی اور ان کے ساتھ موجود خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی، لیکن پولیس کے جوابی کارروائی نے خودکش حملہ ناکام بنایا دیا اور حملہ آور زخمی ہوگیا۔ زخمی مبینہ خودکش حملہ آور کی شناخت ارشاد حسین المعروف قلندر علی طوری کے نام سے ہوئی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق عابد حسین المعروف تھران طوری ہمراہ دیگر مسلح افراد اپنے ساتھ مبینہ خودکش حملہ آور کو زخمی حالت میں لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی پولیس نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن مسلح افراد جدید اسلحہ کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے اپنے ساتھ پولیس کی گاڑی، دو پولیس اہلکاروں کو بھی اغوا کر کے لے گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ اس دوران مسلح افراد نے اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی موقع پر بلالیا جسکی ویڈیو سے شناخت کی جاری رہی ہے۔ سی ٹی ڈی ٹیم پر شدت پسند گروہ نے مقامی لوگوں سے مل کر حملہ کیا جس پر سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک سیاسی رہنما کے گھر پناہ لے لی ۔

ذرائع کے مطابق پاراچنار کے نواحی گاؤں نستی کوٹ کے یوسی چیئرمین سید ساجد بھی اس واقعے میں ملوث ہے اور سید قمر عباس نامی نوجوان اپنی جیپ میں اس شدت پسند گروہ کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔

ذرائع کے مطابق حملے میں زخمی شدت پسند کرم پولیس اور حساس اداروں کو پاراچنار میں خواتین اور طالبات پر ائیر گنز حملوں سمیت کئی مقدمات میں مطلوب تھے۔

واضح رہے کہ ایک عرصے سے پارا چنار میں نامعلوم گروہ کی طرف سے بازار اور سکول جاتی ہوئی خواتین پر آئی گن سے حملے کے جارہے ہیں اور ذرائع کے مطابق اس گروہ کو تحریک حسینی کے سربراہ علامہ تجمل حسین اور سیکرٹری انجمن حسینہ عنایت حسین طوری کی خفیہ طور پر حمایت حاصل ہے لیکن عنایت حسین طوری سوشل میڈیا پر ایئرگن حملوں کی مذمت بھی کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا ہے کہ پاراچنار میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر ہرگز خاموش نہیں رہ سکتے یہ اقدام اسلامی اقدار اور پختون روایات کے سراسر خلاف ہے اور پختو روایات مطابق ان کے خلاف سخت ترین سزائیں مقرر ہیں۔

پاراچنار کی خواتین پاراچنار کا فخر ہے خواتین کے ساتھ اس قسم برتاؤ ہرگز منظور نہیں اور جلد ہی سہولت کار، آلہ کار اور جو کوئی بھی اس میں ملوث ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کا کہنا ہے کہ حالیہ حادثات کے بارے میں ایک تشویش پایا جاتا ہے کہ ہماری محترم بہنیں، مائیں ہم سب کیلئے قابل احترام ہیں اسلام نے بھی خواتین کے حقوق کے سلسلے میں تاکید کی ہے اور ساتھ ہی حجاب اور پردہ داری کا بھی درس دیا ہے،
لہذا موجودہ صورتحال سے پوری دنیا میں ایک غلط تاثر پھیلا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہماری قومی امیج کو شدید نقصان کے ساتھ ہماری وہ تمام خواتین جوکہ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت و دیگر شعبہ جات زندگی سے وابستہ ہیں ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ان تمام ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کاروائی کرکے انہیں بےنقاب کریں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی اقدام کی جرات نہ کرسکیں۔

ساجد حسین طوری نے قوم سے بھی مطالبہ کیا کہ ایسے عناصر کے خلاف نوٹس لیں تاکہ مزید کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔

آئر گنز حملوں سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے ۔

پانچ روز قبل پاراچنار میں ائرگن حملوں میں دو خواتین زخمی ہوگئیں تھیں اور ذرائع کے مطابق اس حملہ میں ایک زخمی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہوگیا تھا۔

گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے پاراچنار سٹی میں درجنوں خواتین شدت پسندوں کے حملوں میں زخمی ہوئیں ہیں لیکن پولیس تاحال کسی بھی ملزم کو گرفتار میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

تنظیم زینبیون بریگیڈ کیسے وجود میں آئی؟

2000 میں شام میں صدر بننے والے بشار الاسد کے خلاف 2011 میں ہونے والے حکومت مخالف اور بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ شام کی جنگ کے کچھ عرصے بعد فرقہ واریت میں بٹ گئی اور سیرئن آبزرویٹری فار ہیوم رائٹس کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباً چار لاکھ سے زائد تصدیق شدہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

شام میں جنگ چھڑنے کے بعد کئی ممالک کی شدت پسند تنظیموں نے شام کا رخ کیا۔ امریکی سکیورٹی اور کنسلٹنٹ فرم سوفان گروپ کے مطابق 2016 تک شام میں 81 ممالک کی شدت پسند تنظیمیں موجود تھیں۔ البتہ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو شام آنے میں کچھ عرصہ لگا۔

2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینبؑ کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد بی بی زینبؑ کے روضے کی حفاطت کے لیے دو تنظیمیں بنائی گئی، جن میں پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا تاکہ وہ شام جاکر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔

2015 میں زینبیون بریگیڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھرتیوں کے متعلق جاری مہم میں کہا گیا تھا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ بھرتی ہونے والے کو 12 سو امریکی ڈالر ماہوار تنخواہ اور ہر تین ماہ بعد 15 دن کی چھٹیاں ملیں گی۔ ویسے تو بھرتی پاکستان بھر سے کی گئی مگر اکثریت پارا چنار اور سابق فاٹا سے شامل ہوئی۔ جب کہ کچھ بلوچ بھی بھرتے کیے گئے مگر ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ان کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے تھا یا ایرانی بلوچستان سے۔

زینبیون بریگیڈ کے اکثریت رضاکاروں کو دمشق میں ہی رکھا گیا تھا۔ شدت پسندی کے موضوع پر مہارت رکھنے والے تجزیہ نگار اور کراچی کے صحافی روحان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والوں میں سے چند کا تعلق پہلے سے پاکستان میں کسی شیعہ تنظیم یا گروپ سے تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تنظیم کے حوالے سے زیادہ کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ زینبیون کا نام جب بھی آتا ہے اس کے ساتھ پڑوسی ملک ایران کا نام بھی سامنے ہے، انہیں اس بات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کے بیانات سے پاکستان کے ایران سے تعلقات پر برا اثر نہ پڑے۔‘

اس کے علاوہ شام میں لڑنے کے لیے افغانستان کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے ایران میں موجود 30 لاکھ سے زائد افغان تارکین وطن کو فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی کیا۔ ایران نے فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والے افغانوں کو ایرانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے رضاکاروں کو 11 سو امیرکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی۔

زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون بریگیڈ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ملیشیا گروہ ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمر شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستانی اور فاطمیون بریگیڈ کے افغان رضاکار ایرانی پاسداران انقلاب کے بازو قدس فورس کی معرفت شام میں شدت پسند لڑائی لڑنے گئے۔

ان کے مطابق: ’زینبیون بریگیڈ میں پاکستان سے ہرقسم کے شیعہ بشمول اردو بولنے والے شیعہ، پاراچنار اور گلگت کے شیعہ بھی گئے۔ شام جا کر لڑائی میں حصہ لینے پاکستان سے کتنے لوگ گئے، اس کی درست تعداد بتانا مشکل ہے، کیوں کہ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے سے گئے تو کچھ لوگ مذہبی زیارتوں پر گئے اور وہاں سے ہی شام چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ دو ہزار سے آٹھ ہزار افراد پاکستان سے شام گئے ہیں۔‘

دنیا بھر میں جیسے شدت پسند تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں اسی طرح شام میں القاعدہ سے منسلک سلفی جہادی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) المعروف داعش اور شام میں جنگ لڑنے والی دیگر تنظیمیں بھی کمزور ہوئی ہے۔ عمر شاہد کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان سے شام جانے والے زینبیون بریگیڈ کے افراد وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

’ہم زینبیون بریگیڈ کی کراچی سمیت پاکستان میں موجودگی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم ان کے واپسی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں زینبیون بریگیڈ سے وابسطہ چند شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی بچے ہوئے افراد کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘

اسی طرح بعض سُنی گروپس کے بارے میں بھی یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ صدر بشار الاسد کے مخالف گرہوں کے ساتھ مل کر وہاں برسر پیکار ہیں۔

ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں ہیں کہ یہ افراد شام کے علاقے دمشق اور حلب میں داعش کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں اور ان میں سے درجنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جن کی تدفین ایران میں کی گئی۔ لیکن اس حوالے سے سرکاری طور پر کبھی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

سیکیورٹی ماہرین کیا کہتے ہیں

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے یہ خطہ بُری طرح متاثر ہوا ہے اور پاکستان کو کسی حد تک اب بھی اس عفریت کا سامنا ہے۔ جس کے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے ختم ہونے میں وقت لگتا ہے جس کے لئے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دیگر طاقتوں کی پراکسی وار کی تاریخ ہی ہے، جس میں بیرونی عناصر مقامی افراد کو استعمال کر کے کسی نہ کسی طرح کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ افغان جنگ کے بعد ہمارے ہاں فرقہ وارانہ تشدد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اور سیاست میں مذہب کارڈ آنے کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم سابق آئی جی پولیس کے خیال میں یہ خطہ بالخصوص پاکستان فرقہ وارانہ تشدد، عسکریت پسندی کے نکتہ عروج سے شاید گُزر چکا ہے، جس میں ملک میں ایک خانہ جنگی جیسی کیفیت تھی۔ تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کس قدر جلد اس مسئلے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

افضل شگری کے مطابق پاکستان میں اب پرتشدد منظم گروہوں کا کافی حد تک خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ لیکن بے روزگاری اور غربت سے جیسے معاشی مسائل اور بیرونی مداخلت کی وجہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔

سابق آئی جی نے کہا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث افراد کی پاکستان میں بلا روک ٹوک آمد و رفت روکنے کے لئے افغانستان اور ایران کے بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے جو کہ کچھ میں سال مکمل ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ اس سے کافی حد تک دہشت گردی، تشدد اور دیگر جرائم روکنے میں نمایاں مدد ملے گی۔


اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو اور وی او اے سے لیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں