یمن میں جنگ بندی کیلئے جاری مذاکرت میں اہم پیشرفت

ریاض (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی حکام کے ساتھ کئی روز سے بات چیت کر رہے تھے تاکہ جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہو سکے۔ حوثی وفد نے صنعا واپسی کے بعد کہا کہ بعض امور پر پش رفت ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے حوثی میڈیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ حوثی مذاکرات کاروں اور سعودی حکام کے مابین یمن میں ممکنہ جنگ بندی معاہدے پر پہنچنے کے لیے پانچ روز تک بات چیت جاری رہی۔

بات چیت کے متعدد ادوار کے بعد حوثی وفد منگل کے روز جب صنعا واپس پہنچا، توحوثیوں کے زیر کنٹرول المسیرہ ٹی وی نے اطلاع دی کہ حوثی وفد کے ساتھ ہی بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک عمان کا وفد بھی ریاض میں موجود تھا۔

سعودی عرب نے کیا کہا؟

بدھ کے روز سعودی وزارت خارجہ نے حوثیوں کے دورے سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ وہ یمن میں امن کے قیام کی حمایت کے لیے روڈ میپ تک پہنچنے کے حوالے سے سنجیدہ بات چیت کے مثبت نتائج کا خیر مقدم کرتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی مملکت یمن اور اس کے برادر لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور یمنی فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی ترغیب دیتی ہے تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن میں ایک جامع اور دیرپا سیاسی حل تک پہنچا جا سکے۔

حوثی وفد نے اپنے دورے کے دوران سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے بھی ملاقات کی، جو طاقتور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بھائی ہیں۔

سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں شہزادہ خالد نے حوثیوں کو “صنعا وفد” کے نام سے خطاب کیا اور ان کے لیے حوثی باغی گروپ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

شہزادہ خالد نے کہا، ’’میں یمن کے لیے سعودی مملکت کی حمایت پر زور دیتا ہوں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے فریقین کے درمیان مذاکرات کی تائید کرتا ہوں۔”

بات چیت سے واقف دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ حوثیوں اور سعودی عرب کے درمیان بعض اہم نکات پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ اس میں یمن سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ٹائم لائن اور ملازمین کو اجرتوں کی ادائیگی کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ فریقین مشاورت کے بعد مزید بات چیت کے لیے “جلد” پھر ملاقات کریں گے۔

مذاکرات میں کن امور پر توجہ تھی؟

حوثیوں کا وفد گزشتہ ہفتے سعودی عرب پہنچا تھا۔ سن 2014 میں حوثی باغیوں نے سعودی حمایت یافتہ یمن کی حکومت کو ہٹا دیا تھا، جس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے حوثیوں کا سعودی عرب کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔

اطلاعات کے مطابق بات چیت میں حوثیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں اور صنعا کے ہوائی اڈے کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے، سرکاری ملازمین کے لیے اجرتوں کی ادائیگی، ملک کی تعمیر نو کی کوششوں اور یمن سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے ٹائم لائن مقرر کرنے پر توجہ مرکوز رہی۔

یمن میں جنگ بندی کے ایک پائیدار معاہدے کے نفاذ سے اقوام متحدہ ایک ایسا وسیع سیاسی امن عمل کو دوبارہ شروع کر سکے گی، جس میں یمنی حکومت اور جنوب کی علیحدگی پسند قوتوں سمیت یمنی تنازعے کے دیگر تمام فریق شامل ہو سکیں گے۔

جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ

ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی سن 2015 سے ہی سعودی عرب کے زیر قیادت فوجی اتحاد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور نتیجتا یمن کی 80 فیصد آبادی اب انسانی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔

امریکہ نے بھی اپنے اتحادی سعودی عرب پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور ریاض کو فراہم کرنے والی اپنی فوجی امداد کو یمن میں جاری مداخلت کو ختم کرنے سے مشروط کیا۔

ریاض اور صنعا کے درمیان عمان کی ثالثی میں ہونے والی مشاورت کا پہلا باضابطہ دور رواں برس اپریل میں اس وقت شروع ہوا، جب سعودی اہلکاروں نے صنعا کا دورہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی الگ سے امن کوششیں جاری ہیں جبکہ یہ بات چیت اس کے متوازی چل رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں