ایران جوہری طاقت بنا تو ہم بھی بنیں گے، سعودی ولی عہد

نیو یارک (ڈیلی اردو/رائٹڑز/اے پی/اے ایف پی) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ ادھر ایران نے سعودی عرب پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کا الزام عائد کیا ہے۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کو نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ان کا حریف ملک ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے، تو پھر سعودی عرب کو بھی ایٹمی طاقت بننا پڑے گا۔

انٹرویو کے دوران جب امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز نے سعودی سلطنت کے عملی حکمران محمد بن سلمان سے پوچھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار تیار کر لیتا ہے تو ان کے ملک کا کیا ردعمل ہو گا؟ اس پر انہوں نے کہا، “اگر وہ (ایران) ایسا کر لیتا ہے، تو ہم بھی حاصل ہی کر لیں گے۔”

اسرائیل سے تعلقات معمول پر آنے کے قریب تر
شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو بتایا کہ دوسرے خلیجی ممالک کی طرح ہی ان کا ملک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: “ہر روز، ہم قریب تر آتے جا رہے ہیں،”

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی مملکت فلسطینیوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مزید پیش رفت کے لیے بھی کوشاں ہیں، جب کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں متنازعہ بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا، “ہمارے لیے فلسطین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔”

واضح رہے کہ اسرائیل مشرق وسطی کے پانچ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا چکا ہے، تاہم سعودی عرب کی طرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اس قدم کو مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری میں ایک تاریخی انعام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

محمد بن سلمان نے انگریزی میں بات کرتے ہوئے کہا، “ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کہاں جاتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ جائیں گے کہ جس سے فلسطینیوں کی زندگیاں آسان ہو جائیں گی اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو بھی اپنا ایک کردار ملے گا۔”

فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے، ایران

فوکس نیوز کے ساتھ محمد بن سلمان کا انٹرویو بدھ کے روز نشر ہوا اور اسی دن ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے ایک بیان میں بغیر نام لیے علاقائی حریف سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے موقع پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ اسرائیلی حکومت اور خطے کے کسی بھی ملک کے درمیان تعلقات کے آغاز کا مقصد اگر اسرائیلی حکومت کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے، تو یقیناً ایسا نہیں ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا، “ہم سمجھتے ہیں کہ علاقائی ممالک اور اسرائیلی حکومت کے درمیان معمول کے تعلقات فلسطینی عوام اور فلسطینیوں کی مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گا۔”

واضح رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی کی ایرانی حکومت کے ساتھ مشترکہ دشمنی کا رشتہ رہا ہے، حالانکہ حالیہ مہینوں میں چین کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے ذریعے ریاض نے تہران کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بعض اہم اقدام بھی کیے ہیں۔

امریکہ کا رد عمل

محمد بن سلمان کا انٹرویو نشر ہونے کے بعد ہی نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن نے ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وہ بھی سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدے کے حوالے سے ‘پر امید’ ہیں۔

ان کا کہنا تھا، “اگر آپ اور میں، 10 سال پہلے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے، تو مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر سوچ رہے ہوتے کہ ‘ شاید ہم حواس میں نہیں ہیں‘؟”

نیتن یاہو اور بائیڈن کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس حوالے سے ایک معاہدہ “ہماری دسترس میں” ہے اور اس کا سہرا انہوں نے بائیڈن کو دیا۔

نیتن یاہو نے کہا “میرا خیال ہے کہ جناب صدر، آپ کی قیادت میں ہم اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی امن کا معاہدہ قائم کر سکتے ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں