میرواعظ عمر فاروق کی چار سالہ نظربندی ختم: ’صبر کا مظاہرہ کریں، حالات جلد ہمارے حق میں بدل جائیں گے‘

سری نگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جمعے کے روز حُریّت کانفرنس کے رہنما میرواعظ عمر فاروق کی چار سالہ نظربندی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

عمر فاروق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ممتاز علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنھیں چار اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اے اور 35 کی منسوخی کے بعد سے نظر بندی کا سامنا تھا۔

جمعہ کو رہائی کے فوراً بعد حُریّت کانفرنس کے رہنما میرواعظ عمر فاروق نے سخت سکیورٹی حصار میں تاریخی جامع مسجد میں اپنے خطاب کے دوران یوکرین جنگ پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے موٴقف کو درست قرار دیا۔

میرواعظ نے وزیراعظم نریندر مودی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جس طرح انھوں نے یوکرین تنازعے کے لیے صرف بات چیت کو واحد حل قرار دیا اور جنگ کو نقصان دہ بتایا وہ ایک درست مؤقف ہے۔

’اگر وزیراعظم نریندر مودی یوکرین کے معاملے میں جنگ کی بجائے پُرامن مذاکرات کو ہی صحیح حل سمجھتے ہیں، ہم یاد دلاتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سے امن عمل کی حمایت کرتے رہے جس کے لیے ہمیں نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ اسی لیے ہم آج بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر پُرامن بات چیت کو ہی صحیح سمجھتے ہیں۔‘

طویل نظربندی کے بعد انھوں نے تاریخی جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع سے خطاب کے دوران کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ بات چیت اور امن عمل کی وکالت کی ہے، اس عمل میں شریک بھی ہوئے ہیں حالانکہ اُس کا ہمیں بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔

’ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔‘

میرواعظ عمر فاروق نے وادی چھوڑنے والے 33 کشمیری پنڈتوں کی واپسی کو بے حد ضروری قرار دیا اور کہا کہ ’پنڈت برادری کا مسئلہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں، اس مسئلے کو انسانی مسئلے کے طور پر دیکھنا چاہیے اور انسانی بنیادوں پر ہی حل ہونا چاہیے۔‘

اس دوران میر واعظ نے جیلوں میں قید سیاسی رہنماوٴں، انسانی حقوق کے رضاکاروں اور نوجوانوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

’آپ کہیں بھی جانے کے لیے اب آزاد ہیں ‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ میرواعظ عمر فاروق پہلے معروف علیحدگی پسند رہنما ہیں جنھیں 2019 کے بعد پہلی مرتبہ عوامی اجتماع سے خطاب کی اجازت دی گئی۔

میرواعظ کی مسلسل نظربندی کو ختم کرنے کا مطالبہ یہاں کے سیاسی حلقے کئی برسوں سے کر رہے تھے۔

گذشتہ ہفتے میرواعظ کی تنظیم عوامی ایکشن کمیٹی نے عدلیہ کا رُخ کیا تو عدالت نے انتظامیہ کو دو ہفتوں کے اندر اُن کی نظربندی کا جواز پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔

تاہم میرواعظ عمر نے خطاب کے آغاز میں ہی یہ انکشاف کیا کہ جمعرات کی شام کو پولیس کے بعض افسروں نے اُن کے گھر جا کر انھیں مطلع کیا کہ وہ کہیں بھی جانے کے لیے اب آزاد ہیں اور وہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں خطاب بھی کر سکتے ہیں۔

اُن کی رہائی سے قبل بی جے پی کی خاتون رہنما اور مسلم وقف بورڈ کی سربراہ درخشاں اندرابی نے میرواعظ کے گھر جا کر انھیں مبارکباد دی۔

درخشاں اندرابی نے ان کے ساتھ لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’بھائی میر واعظ عمر فاروق صاحب کو مبارکباد۔ انتظامیہ کا یہ فیصلہ نہایت اطمینان بخش ہے۔

’مذہبی رہنما سب کے رہنما ہوتے ہیں، ان پر کسی گروہ یا کسی سیاسی جماعت کا کاپی رائٹ نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اُمید ہے کہ ڈرامائی سیاسی بیانات اس خوشی کو زائل نہیں کریں گے جو میرواعظ کی رہائی سے ملی ہے۔‘

’حالات عنقریب ہمارے حق میں بدل جائیں گے‘

میرواعظ عمر فاروق نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پانچ اگست 2019 کو انڈین حکومت نے ’لوگوں کی مرضی کے خلاف یکطرفہ طور پر جموں کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کر کے جموں کشمیر کو تقسیم کیا اور اس واقعے کے بعد لوگوں نے جن مصائب کا سامنا کیا، آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔‘

میرواعظ عمر فاروق نے جموں کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کو ’مصنوعی لکیر‘ قرار دے کر کہا کہ اس لکیر کے دونوں جانب لوگ اپنے عزیز اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ترس رہے ہیں۔‘

انھوں نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ’حالات عنقریب ہمارے حق میں بدل جائیں گے۔‘

انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ ’اپنے جذبات پر قابو رکھیں، صبر اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔‘

یہی وجہ ہے کہ جامع مسجد میں پہلی مرتبہ انڈیا مخالف اور علیحدگی پسند نعرے بازی نہیں ہوئی۔

’کبھی ہمیں علیحدگی پسند کہا گیا اور کبھی امن مخالف اور کبھی وطن دُشمن کہا گیا۔ لیکن حریت کانفرنس کا جو دیرینہ موٴقف ہے وہی آج بھی ہے کہ ہم بات چیت سے ہی مسائل کا حل چاہتے ہیں اور جموں کشمیر میں ہر فرقے، ہر مذہب اور ہر طبقے کے لئے یکساں طور پر امن اور مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ 1947 کے بعد جموں کشمیر کا ایک حصہ انڈیا کے پاس ہے، کچھ حصہ پاکستان کے پاس ہے اور کچھ حصہ چین کے پاس ہے۔

’حریت کانفرنس جموں کشیرکو درپیش مسائل پر اپناموقف ظاہر کرتی رہی ہے لیکن مقامی میڈیا کو ہمارے بیانات شائع کرنے سے روکا گیا۔ لیکن ہم آج بھی یہی کہتے ہیں جموں کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے جس کی تصدیق عالمی برادری کر چکی ہے اور اس کا حل صرف اور صرف پُرامن بات چیت سے ممکن ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں