کیا سکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نظریہ اب بھی زندہ ہے؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے خالصتان تحریک ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ سکھوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی بجائے مکمل سمجھ بوجھ اور ہمدردی کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔

کینیڈا کی سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے پر بھارت اور کینیڈاکے مابین سفارتی کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر بھی کر چکے ہیں۔ 45 سالہ نجر کئی دہائیاں قبل پناہ گزین کے طور پر کینیڈا آئے تھے اور بعد انہوں نےکینیڈا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ وہ بھارتی ریاست پنجاب میں سکھوں کےایک خود مختار وطن یا خالصتان کے قیام کے پرجوش حامی تھے۔

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دعویٰ کیا کہ نجار کے قتل میں بھارتی ایجنٹ ملوث تھے۔ بھارت نے ان الزامات کو ‘مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ تاہم بھارتی حکام نجار کو ایک دہشت گرد کے طور پر دیکھتے ہیں، جوعلیحدگی پسند سکھوں کی بھارت میں کالعدم قرار دی گئی ایک تنظیم خالصتان کمانڈو فورس کے رکن اور بھارت کو اپنے ہاں مختلف سیاسی اور مذہبی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ میں مطلوب تھے۔

بھارت کے اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں

جہاں وزیر اعظم ٹروڈو کے الزامات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا امکان ہے، وہیں اس تنازع نے خالصتان کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر توجہ مرکوز کرا دی ہے۔ بھارت میں کچھ لوگ عسکریت پسند سکھ علیحدگی پسندی کے دوبارہ احیاء سے خوفزدہ ہیں، جو کبھی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے حوالے سے درپیش ایک بڑا خطرہ تھا۔

بیرون ملک مقیم لاکھوں سکھ

سکھ علیحدگی پسند تحریک طویل عرصے سے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بھاری پنجاب کے بعد سکھوں کی سب سے بڑی آبادی کینیڈا میں مقیم ہے، جو تقریباً آٹھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جو اس کی مجموعی آبادی کا تقریباً 2% ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 30 لاکھ سکھ ہندوستان سے باہر برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔

خالصتان کے نام سے ایک آزاد سکھ وطن بنانے کی تحریک کے دوران 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں دسیوں ہزار افراد قتل ہوئے۔ یہ تشدد سکھوں کے ایک بنیاد پرست مبلغ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی وجہ سے تھا۔

سکھ برادری کے لیے ایک خاص طور پر تکلیف دہ واقعہ بھارتی فوجی کا سن 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ تھا۔ یہ دنیا بھر کے سکھوں کے لیے سب سے مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس دوران سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں لیکن سکھ کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔

بھارت سے باہرشدت پسندی آسان

سکھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ خالصتان کی حمایت پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ نئی دہلی میں واقع سکھوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم سکھ فورم کے سیکرٹری جنرل پرتاپ سنگھ کے مطابق، “پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں میں آباد سکھ ایک الگ خالصتان کی حمایت نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ 1947ء میں ملک کی تقسیم کے فوراً بعد سے لاتعلقی کا شکار کیے جانے بھی پر سکھوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔‘‘

سنگھ نے مزید کہا،”سکھوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں غیر اخلاقی تکنیکوں اور طاقتوں کے استعمال کی بجائے مکمل سمجھ بوجھ اور ہمدردی کے ساتھ سیاسی بات چیت کے ذریعے علاج کی ضرورت ہے۔‘‘

خالصتان ‘بموں اور گولیوں کے بغیر‘

چندی گڑھ میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر پرمود کمار کے مطابق سکھوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک میں اب دم نہیں رہا۔ انہوں نے ایک علیحدگی پسند امرت پال سنگھ کی چند ماہ قبل حراست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی سرگرمیوں نے عسکریت پسند سکھ علیحدگی پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے کا خدشہ پیدا کیا۔

تاہم کمار کے بقول، “اس نے اپنے آپ کو وارث پنجاب دے نامی تنظیم کا لیڈر بنایا لیکن جب انہیں گرفتار کیا گیا تو اس تنظیم نے کوئی خاص احتجاج نہیں کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں اب علیحدگی پسندی کو بہت کم حمایت حاصل ہے۔ اس سے معاملہ طے ہو جانا چاہیے تھا۔‘‘

لیکن نجار کی موت نے خالصتان کی حامی تنظیم دل خالصہ کے ساتھ بظاہر ایک مختلف پوزیشن لی ہے ۔ جولائی میں پہلی بار نجار کی موت کی خبر آنے کے بعد سئ دل خالصہ نے ایک احتجاجی مارچ کیا اور اس کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے ترجمان کنورپال سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو تحریک کے مستقبل کے وژن کے بارے میں بتایا، “ہم ایسے خالصتان پر یقین رکھتے ہیں جو بموں اور گولیوں کے بغیر ہو۔ یہ جمہوری اور خونریزی اور تشدد کے بغیر ہو اور یہ وہ چیز ہے جسے آپ ہم سے چھین نہیں سکتے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں