حماس کا مقصد سعودی اسرائیل تعلقات کے قیام کو روکنا ہوسکتا ہے، اینٹنی بلکن

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/وی او اے) امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی ممکنہ بحالی میں خلل ڈالنا حماس کے حالیہ حملوں کے محرکات میں شامل ہو سکتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اتوار کو مختلف امریکی نیوز چینلز سے بات کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ حماس، حزب اللہ اور ایران مذاکرات، اسرائیل کی اپنے پڑوسیوں اور خطے سے باہر کے ممالک کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کی مخالفت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ حالیہ حملے کا مقصد معمول کے تعلقات کے قیام کی کوششوں کو ناکام بنانا ہو۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جانب سے اضافی معاونت کی درخواست پر غور کر رہا ہے اور اتوار کو اس سلسلے میں مزید پیش رفت ہوسکتی ہے۔

اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ہم اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے دوران امریکیوں کی ہلاکت یا یرغمال بنانے کی تصدیق کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔

اس سے قبل امریکہ کی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فنر نے امریکی نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل پر ہونے والے حملے کس طرح ہوئے،اس میں ایران نے کیا کردار ادا کیا یا ان حملوں کا مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کو متاثر کرنا؟ اس بارے میں واضح طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

تاہم انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے قومی مفاد میں معمول کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔

سعودی اسرائیل ڈیل کے امکانات؟

سعودی عرب اور اسرائیل نے حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیےگرم جوشی کا اظہار کرچکے ہیں جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کئی رکاوٹوں کے باوجود دونوں ملک کسی تاریخی اتفاق رائے کی جانب پیش رفت کر سکتے ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد اور عملاً حکمران تصور ہونے والے شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ امریکی ٹیلی وژن ’فاکس نیوز‘ کو انٹرویو میں عندیہ دیا تھا کہ ہر گرزتے دن کے ساتھ ہم مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی پیش رفت کے قریب ہو رہے ہیں۔

بعد ازاں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے قریب ہونے کا بیان دیا تھا۔

گزشتہ ماہ نیویارک میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی اہمیت کی حامل ہے۔

سعودی عرب نے امریکہ کی ثالثی سے اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان ہونے والے ‘ابراہم معاہدوں’ سے خود کو دور رکھا ہے۔

اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ فلسطینی اس معاہدوں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

صدر بائیڈن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی بڑی سفارتی کامیابی کو مشرقِ وسطیٰ میں استحکام لانے اور ایران کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔

مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس سعودی حکام نے اسی معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کے سامنے کچھ شرائط رکھی تھیں۔

ان شرائط میں امریکہ سے دفاعی تعاون اور یورنیم افزودگی کی صلاحیت کے ساتھ سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لیے معاونت کی ضمانت حاصل کرنا شامل تھا۔

تاہم حماس کے حالیہ حملے کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے امریکی کی ثالثی کی کوشش متاثر ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں