غزہ کے قریب اسرائیلی فورسز اور حماس کے درمیان جھڑپیں، 600 اسرائیلی شہری اور 413 سطینی ہلاک

غزہ + تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ سنیچر سے اب تک حماس کے حملے میں 600 سے زیادہ اسرائیلی شہری ہلاک جبکہ 2000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 100 سے زیادہ اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ہے۔

دوسری طرف غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں 413 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد قریب 2300بتائی گئی ہے۔

’غزہ میں ہر جانب موت ہی موت ہے‘

غزہ شہر سے تعلق رکھنے والے نیورو ری ہیبلیٹیشن اور پین میڈیسن کنسلٹنٹ ڈاکٹر خمیس ایلیسی نے بی بی سی سے بات کی اُن کا کہنا تھا کہ ’غزہ میں جہاں کہیں بھی آپ جا رہے ہیں، آپ کو جنازے نظر آتے ہیں، آپ کو ہر طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بلکُل ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ اس زمین پر زندگی کے خاتمے کے بارے میں کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘

ایلیسی کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے اپنے خاندان کے افراد کو چوتھی منزل کے گھر سے گراؤنڈ فلور پر اپنے بھائی کے گھر منتقل کر دیا کیونکہ چوتھی منزل پر ‘پوری عمارت دائیں سے بائیں اور ایک طرف سے دوسری طرف جا رہی ہے اور دھماکوں سے لرز رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’وہ کل سے سوئے نہیں ہیں۔ ’حالات یہ ہیں کہ آپ آنکھیں تک بند نہیں کر سکتے، بچے رو رہے ہیں اور چیخ رہے ہیں، بجلی نہیں ہے، انٹرنیٹ نہیں ہے اور اس لیے آپ کو لگتا ہے کہ اب آپ کی باری ہے۔‘

’یہ بم آپ کے گھر کے اوپر، آپ کے اپارٹمنٹ کے اوپر ہو گر سکتا ہے۔‘

غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے ’زیرِ زمین ہونے کا امکان‘

کچھ ہی عرصہ قبل بی بی سی ریڈیو 4 کے ایک پروگرام ’دی ورلڈ دس ویک اینڈ‘ میں صحافی گرشون باسکن نے اسرائیلی فوجی گلاد شلیٹ سے متعلق بات کی۔ گلاد شلیٹ وہی اسرائیلی فوجی ہیں جنھیں سن 2011 میں حماس نے یرغمال بنا لیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے گرشون باسکن نے حماس کے ساتھ مزاکرات کیے تھے۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران گرشون باسکن کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے کہ حماس نے یرغمالیوں (اسرائیلی باشندوں) کو زیر زمین منتقل کر دیا ہو جس کی وجہ سے اسرائیل کے لیے ان کا سراغ لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔‘

باسکن نے مزید کہا کہ ’میں بلا شبا یہ کہ سکتا ہوں کہ اسرائیل کا پہلا مقصد فوجی کارروائیوں کے ذریعے انھیں (اسرئیلی یرغمالیوں کو) تلاش کرنا ہوگا، نہ کہ مذاکرات کے ذریعے۔‘

باسکن نے کہا کہ ’انھیں توقع ہے کہ فضائی حملوں کے بعد اسرائیل غزہ میں ’بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن‘ کے لیے بری فوج بھیجے گا، جس کا مقصد حماس کے اہم رہنماؤں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اور اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرانا ہے ہوگا۔‘

ایرانی صدر کا فلسطینی عسکریت پسند رہنماؤں سے رابطہ

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی صدر نے حالیہ تازہ ترین پیش رفت کے بعد فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس اور اسلامی جہاد کے رہنماؤں سے بات چیت کی ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی دونوں رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی تفصیلات تا حال ظاہر نہیں کی گئیں۔

واضح رہے کہ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے جو اسے مالی اعانت کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے۔

غزہ کے قریب اسرائیلی علاقوں میں لڑائی جاری

میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی اسرائیل کے کئی حصوں میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ہارٹز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج نے غزہ کی سرحد کے قریب ’سدروت‘ کے ایک پولیس سٹیشن پر 10 مسلح جنگجوؤں سے لڑائی کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے پر اسرائیل نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

اخبار نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ انھوں نے رات گئے جنوبی علاقے کے بیشتر حصوں کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا ہے، لیکن غزہ کی سرحد کے قریب بیری، سدروٹ اور چار دیگر جنوبی مقامات پر جھڑپیں جاری ہیں جن کی وضاحت نہیں کی گئی۔

ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی سرحد کے قریب واقع ایک اور علاقے ’کفر عزا‘ کے رہائشی اب بھی اپنے گھروں میں محصور ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔

ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ ’کفر عزا اب بھی شدید جنگ کی زد میں ہے۔‘

یرغمالیوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے زمینی کارروائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے

یوروشلم میں مشرق وسطیٰ کے بیورو چیف جو فلوتو کے مطابق ’گذشتہ شب سے اسرائیلی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی وہ ویڈیوز دیکھ رہے ہیں کہ جن میں شہریوں کو بندوق کی نوک پر ان کے گھروں سے باہر نکالا گیا اور بعد ازاں اُنھیں غزہ منتقل کیا گیا اور اکثر کو کیمرے کے سامنے تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا۔‘

یہ تمام تر صورت حال اور مناظر اسرائیل کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں۔ ان حالات کو دیکھنے کے بعد ان یرغمالیوں کی بازیابی اور با حفاظت اپنے گھروں اور علاقوں میں واپسی اس وقت سب سے اہم امر ہے۔

ماضی میں، جب اسرائیلی باشندوں کو عسکریت پسند گروہ حماس یرغمال بنانے میں کامیاب ہوا تھا تو یہ معاملہ بالآخر مذاکرات پر ہی ختم ہوا تھا، مذاکرات کے اس عمل میں کئی سال بھی لگے، اور جب یہ ممکن ہوا تو اس کے بدلے میں ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہائی ملی۔

ہم جانتے ہیں کہ حماس اب بھی ایسا ہی کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ان یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی عسکریت پسندوں کی رہائی کو یقینی بنائے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے حماس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر یرغمالیوں کو نقصان پہنچایا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

یہ دیکھنا مشکل ہے کہ وہ زمینی آپریشن کے بغیر یرغمالیوں کو کیسے بازیاب کرا سکتے ہیں – اور وہ اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ فائرنگ میں ہلاک نہ ہوں۔

اسرائیلی فوج ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو متحرک کر رہی ہے اور ٹینکوں کو غزہ کی سڑک پر لایا جا رہا ہے۔ کسی موقع پر زمینی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں