فرانس کے ایک اسکول میں چاقو حملے میں استاد ہلاک، دو زخمی

پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) فرانس کے شمال مشرقی شہر اراس کے ایک اسکول میں چاقو کے حملے میں ایک استاد ہلاک جبکہ دو دیگر افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کا تعلق چیچنیا سے ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق حملہ آور کا تعلق روس کے مسلم اکثریتی جنوبی قفقاز کے علاقے چیچنیا سے ہے اور وہ پہلے سے ہی ممکنہ سکیورٹی خطرے کے طور پر پولیس ریکارڈ میں تھا۔ تاہم اس حملہ آور کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ زخمی ہونے والوں میں ایک سکیورٹی ایجنٹ ہے، جس پر متعدد بار چاقو سے حملہ کیا گیا، جبکہ دوسرا استاد ہے جو بہت زیادہ زخمی نہیں ہے۔

پولیس ہی کے ایک اور ذریعے نے بتایا کہ اسکول کا کوئی طالب علم زخمی نہیں ہوا۔

فرانسیسی وزیر داخلہ ژیرالڈ درمانا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ پولیس نے اس مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق صورتحال اب قابو میں ہے اور عوام کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور نے ‘اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔

فرانس کی قومی انسداد دہشت گردی سے متعلق حکام کے مطابق فوری طور پر حملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اسلامی انتہا پسندوں کی طرف سے متعدد حملے کیے جا چکے ہیں۔

2020ء میں پیرس کے مضافاتی علاقے میں ایک اسکول کے قریب ایکانتہا پسند چیچن پناہ گزین کی طرف سے ایک ٹیچر سیموئل پاٹی کا دن دہاڑے سر قلم کیے جانے کے واقعے نے فرانس میں مسلم شدت پسندی سے متعلق نئی بحث کو جنم دیا۔

حماس کے حملوں کے بعد فرانس میں تناؤ

گزشتہ ہفتے حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد فرانس میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں یہودی اور مسلم برادریاں آباد ہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے جمعرات 12 اکتوبر کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرانس میں 582 مذہبی اور ثقافتی عمارات کے لیے سکیورٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر ماکروں کا کہنا تھا، ”جو لوگ فلسطینی کاز اور دہشت گردی کے جواز کو الجھاتے ہیں وہ ایک بڑی اخلاقی، سیاسی اور تزویراتی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘

اسرائیل کے اندر حماس کے حملے کے بعد فرانسیسی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے پر بھی تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بائیں بازو کی طرف سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس پابندی کے سبب اب امن کے لیے احتجاج کرنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف دائیں بازو کی طرف سے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔

فرانسیسی وزیر داخلہ ژیرالڈ درمانا نے جمعرات کو ملک بھر میں مظاہروں پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ ان کے مطابق ایسے مظاہروں سے ملک میں ”امن عامہ میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہے۔‘‘ ایسے مظاہروں کے منتظمین کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں