غزہ کے ہسپتال پر حملے میں 500 سے زائد فلسطینی ہلاک، اسرائیل کی تردید

غزہ + تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) غزہ میں ہسپتال پر ہلاکت خیز حملے پر عالمی غم و غصے کے درمیان عرب رہنماؤں نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ طے شدہ سربراہی اجلاس کو منسوخ کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر حملے کی تردید کی ہے۔

غزہ میں حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے وسطی غزہ میں ایک کھچا کھچ بھرے ہسپتال کے کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں مریضوں اور بے گھر ہونے والے فلسطینیوں سمیت تقریباً 500 افراد ہلاک ہو گئے۔

حماس نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، تاہم اسرائیل نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ہسپتال پر حملہ نہیں کیا اور اس نے فلسطینی گروپ اسلامی جہاد پر اس کا الزام لگایا ہے۔ لیکن اسلامی جہاد نے اس کی تردید کی ہے۔

اسرائیل اور حماس کی اس جنگ میں اب تک تین ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جس میں آٹھ سو سے زیادہ بچے اور سینکڑوں خواتین شامل ہیں۔ اس دوران بارہ ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اسرائیل میں بھی 1300 سو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔

ہسپتال میں کیا ہوا؟

غزہ کا الاہلی عرب ہسپتال زخمیوں سے بھرا ہوا تھا اور اطلاعات کے مطابق زبردست دھماکے کی وجہ سے اس کو بری طرح سے نقصان پہنچا ہے اور پانچ سو سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے۔

ہسپتال کے کچھ حصوں میں آگ لگ گئی جبکہ آپریشن تھیٹر کی چھت کا کچھ حصہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ہر طرف ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے پڑے تھے اور بہت سارے لوگ ہسپتال کے اندر پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے جب کہ بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے راہداریوں میں منتقل ہو گئے۔

غزہ میں فلسطینی وزارت صحت نے الاہلی اسپتال کی صورتحال کو ”بے مثال اور ناقابل بیان” قرار دیا ہے۔

وزارت کے ترجمان ڈاکٹر اشرف القدرہ نے بدھ کے روز صبح سویرے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں کہا، ”ڈاکٹر زمین پر اور راہداریوں میں سرجری کر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ لوگوں کو تو بے ہوش بھی نہیں کیا گیا تھا۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”بہت سارے لوگ اب بھی آپریشن کے منتظر ہیں، اور طبی ٹیمیں انتہائی نگہداشت والے زمرے میں اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین میں سے بہت سے بچے اور خواتین شامل ہیں جنہیں، ”پہچاننا بھی مشکل ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے زخمیوں کے زخم ”ہماری طبی ٹیموں کی صلاحیتوں سے باہر ہیں”۔

بائیڈن کے ساتھ عرب رہنماؤں کی ملاقات منسوخ

غزہ شہر میں ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد عرب رہنماؤں نے اردن کے دارالحکومت عمان میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ اپنی مجوزہ ملاقات کو منسوخ کر دیا ہے۔

اردن کے شاہ عبداللہ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے تھے، جس میں محصور غزہ کی پٹی میں شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے پر بات چیت ہونی تھی۔ اس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شرکت کرنے والے تھے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ عمان میں علاقائی رہنماؤں اور امریکی صدر کے درمیان سربراہی اجلاس اب ایک ایسے وقت ہوگا جب فریقین فلسطینیوں کے خلاف جنگ اور قتل عام کے خاتمے پر متفق ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ”خطے کو دہانے پر دھکیل رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اردن سربراہی اجلاس اس وقت منعقد کرے گا جب سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ اس کا مقصد ”جنگ کو روکنا، فلسطینیوں کی انسانیت کا احترام کرنا اور وہ امداد فراہم کرنا ہے، جس کے وہ مستحق ہیں۔”

حملے کی عالمی سطح پر مذمت

خبر رساں اداروں اور سوشل میڈیا میں غزہ کے ہسپتال کے جلتے ہوئے کمروں، افراتفری اور اسٹریچرز پر زخمیوں کی دل دہلا دینے والی تصاویر سے فوری طور پر بھر گیا۔ حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ایکس پر لکھا، ”میں آج غزہ کے ایک ہسپتال پر ہونے والے حملے میں سینکڑوں فلسطینی شہریوں کی ہلاکت سے خوفزدہ ہوں، جس کی میں شدید طور مذمت کرتا ہوں۔”

انہوں نے کہا کہ ”میرا دل متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ ہے۔ ہسپتالوں اور طبی عملے کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔”

بیجنگ میں ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے، جہاں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پوٹن بھی موجود تھے، انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ دینی ہو گی۔

انہوں نے کہا، ”میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اس بے مثال انسانی مصائب کو کم کرنے کے لیے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بہت زیادہ جانیں جا چکی ہیں اور ہم پورے خطے کی تقدیر کو معلق دیکھ رہے ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی اس کی مذمت کی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس حملے کا ذمہ دار کون ہے۔

بوریل نے کہا، ”غزہ کے الاہلی عربی ہسپتال سے آنے والی خبروں نے کئی دنوں سے ہماری آنکھوں کے سامنے آنے والے سانحے کو مزید خوفناک بنا دیا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، ”ایک بار پھر، بے گناہ شہری ہی سب سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ اس جرم کی ذمہ داری واضح طور پر طے کی جانی چاہیے اور مجرموں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔”

صدر ماکروں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ”کوئی بھی چیز ہسپتال پر حملہ کرنے کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی چیز شہریوں کو نشانہ بنانے کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔ فرانس غزہ کے الاہلی عرب ہسپتال پر حملے کی مذمت کرتا ہے، جس میں بہت سے فلسطینی متاثر ہوئے ہیں۔”

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی تل ابیب جاتے وقت اس واقعے پر اپنے ”غصے” کا اظہار کیا۔ آج وہ تیل ابیب پہنچنے والے ہیں، جہاں وہ اسرائیل کی حمایت پر زور دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ”میں غزہ کے الاہلی عرب ہسپتال میں ہونے والے دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خوفناک جانی نقصان پر غمزدہ اور غصے میں ہوں۔” بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے اپنی قومی سلامتی ٹیم کو یہ دیکھنے کی ہدایت کی ہے کہ آخر کیا ہوا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی امریکہ نے اسرائیل کے اس بیان کی حمایت بھی کی ہے کہ اس نے یہ حملہ نہیں کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا، ”اسرائیلیوں نے واضح طور پر اور سختی کے ساتھ اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا اس سے کوئی تعلق ہے۔” انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل ”بہت شدت سے” محسوس کرتا ہے کہ غزہ شہر کے ایک اسپتال میں بڑا دھماکہ ”ان کی وجہ سے نہیں ہوا۔”

حملے کے خلاف زبردست مظاہرے

اسرائیلی حملوں کے خلاف فلسطینیوں نے منگل کی رات مغربی کنارے کے کئی شہروں کی سڑکوں پر زبردست احتجاج کے دوران پتھراؤ کیا اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی۔ سیکورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ فائر کیے۔

ہسپتال پر ہونے والے حملے سے مشتعل مظاہرین لبنان کے دارالحکومت بیروت میں امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے، جہاں آگ زنی کے واقعات پیش آئے۔ ایک اور گروپ فرانسیسی سفارت خانے کے باہر جمع ہوا اور مبینہ طور پر عمارت پر پتھراؤ کیا۔

لبنان کے حزب اللہ عسکریت پسند گروپ نے مسلمانوں اور عربوں سے ”شدید غصے کا اظہار کرنے کے لیے فوری طور پر سڑکوں اور چوراہوں پر نکل آنے” کا مطالبہ کیا۔

طرابلس اور لیبیا کے دیگر شہروں میں بھی سینکڑوں افراد فلسطینی پرچم اٹھائے جمع ہوئے اور غزہ والوں کی حمایت میں نعرے لگائے۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں برطانوی اور فرانسیسی سفارت خانوں کے ساتھ ہی ترکی اور اردن میں اسرائیلی سفارت خانوں کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں