عرب ممالک فلسطینی پناہ گزینوں کو لینے کیلئے کیوں تیار نہیں؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) مصر سمیت دیگر عرب ممالک حماس اسرائیل جنگ کے دوران پناہ کی تلاش میں علاقے سے نکلنے والےفلسطینیوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینےسے انکار کر چکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقبل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیاجاسکے۔

خیال رہے کہ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔

فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انہیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی بے دخلی کے عمل کا آغاز سن 1948 میں تقریباً اسی وقت سے ہوا جب اسرائیل معرض وجود میں آیا۔ اس وقت کوئی سات لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے سے جو اس وقت اسرائیل ہے، نکال دیا گیا تھا یا وہ خود ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔ فلسطینی اسے نقبہ کا نام دیتے ہیں جس کے معنیٰ اردو میں تباہی یا بربادی کے ہیں۔

سن 1967 میں مشرقِ وسطیٰ کی جنگ ہوئی اور اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا تو تین لاکھ مزید فلسطینیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اور ان میں سے زیادہ تر نے اردن میں پناہ حاصل کی۔

اسرائیل ان پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا رہا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ اس سے ملک میں یہودیوں کے اکثریتی توا زن کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

مصر کو اندیشہ ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے گی اور غزہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد وہاں مستقل طور پر آباد ہو جائے گی۔

جنگ کیسے ختم ہو گی؟

فلسطینیوں کے اپنے علاقوں میں واپسی کی کوئی ضمانت نہ ہونے کی ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ جاری جنگ کس طرح ختم ہو گی۔

اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ حماس کو تباہ کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ غزہ پر کس کی حکومت ہو گی؟ اور اس سے یہ تشویش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایک مدت کے لیے اس علاقے کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لے گا۔ اور یوں مزید تصادم کو ہوا ملے گی۔

مصری صدر کا کہنا کہ ہےاگر اسرائیل یہ سمجھے کہ اس نے جنگجوؤں کو پوری طرح سے تباہ نہیں کیا ہے تو یہ لڑائی برسوں چل سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو اس وقت تک اپنے صحرائے نگیو میں رکھ سکتا ہے جب تک کہ اس کی فوجی کارروائیاں ختم نہیں ہو جاتیں۔

عرب ملکوں اور بہت سے فلسطینیوں کو بھی یہ شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو ایک الگ ریاست کے فلسطینیوں کے مطالبے کو ختم کرنے کے لیے، آبادی کے تناسب میں زبردستی ایک مستقل تبدیلی کے واسطے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

کارنیگی انڈومینٹ برائے بین الاقوامی امن سے وابستہ سینئر ایسو سی ایٹ فیلو اے ایچ ہیلر کہتے ہیں کہ تمام تاریخی مثالیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جب بھی فلسطینیوں کو فلسطینی علاقے سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور مصر غزہ میں اس نسلی تطہیر کے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔

اور ان عوامل کے سبب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں کا منظر نامہ کیا بنے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں