حماس اور اسرائیل جنگ میں اب تک 48 صحافی ہلاک

نیو یارک (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جاری جنگ میں گزشتہ ہفتے مزید تین صحافیوں کی اموات کی تصدیق ہوئی ہے جن میں ایک صحافتی تنظیم کے سربراہ بھی شامل ہیں۔

غیر خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے مطابق صحافیوں کے خاندانوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں قائم صحافیوں کی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے کہا ہے کہ ہٖفتے کے اختتام پر نئی اموات کی رپورٹس کے ساتھ چھ ہفتوں سے جاری جنگ میں مصدقہ اطلاعات کے مطابق 48 صحافیوں کی موت ہو چکی ہے۔

یہ اموات 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد اسرائیل کی فوج کی کارروائیوں کے دوران دونوں اطراف ریکارڈ کی گئی ہیں۔ صحافیوں کا ادارہ ہر ہلاکت کی کم از کم دو ذرائع سے تصدیق کرتا ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق زیادہ تر صحافی غزہ کی پٹی میں ہلاک ہوئے ہیں۔

اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں میں 43 فلسطینی، 4 اسرائیلی اور ایک لبنان سے تعلق رکھتے ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کوآرڈینیٹر شریف منصور نے ’رائٹرز‘ کو ایک ای میل میں بتایا کہ اس سارے خطے میں صحافی اس دلخراش تنازعے کی رپورٹنگ کے دوران قربانیاں دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں موجود صحافیوں نے خاص طور پر اپنے کام کے دوران بے مثال قیمت ادا کی ہے اور انہیں بہت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔

اتوار کو غیر سرکاری تنظیم پریس ہاؤس فلسطین کے بورڈ کے سربراہ اور صحافی بلال جد اللہ کی موت ہوئی تھی جب کہ ان کے ہمراہ ان کے فارماسسٹ بہنوئی بھی شدید زخمی ہوئے۔

صحافی بلال جد اللہ کی بہن نے بتایا کہ بلال جداللہ نے ان کو بتایا تھا کہ وہ غزہ شہر سے باہر جنوب کی طرف جا رہے ہیں۔

خاندان کے مطابق اسے بلال جداللہ غزہ شہر کے زیتون کے علاقے میں مارے گئے۔

ان کی بہن نے بتایا کہ جو لوگ اسے ڈھونڈ کر ایک طبی مرکز لے گئے تھے انہوں نے بتایا کہ ان کی ہلاکت اسرائیلی ٹینک کے گولے سے ہوئی تھی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وہ آزادانہ طور پر اس رپورٹ یا اس ہفتے کے آخر میں ہلاک ہونے والے دیگر دو صحافیوں کی اموات کی رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکا۔

بلال کے علاوہ دو فری لانس صحافی حسونہ سلیم اور سری منصور ہفتے کے روز غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع بوریج پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔

ان کی موت کی خبر ان کے رشتہ داروں اور فلسطینی طبی حکام نے دی تھی۔اسرائیلی فوج نے جد اللہ یا دیگر کی ہلاکت کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں