انٹیلی جنس معلومات کے باوجود امریکہ اور کینیڈا سکھ علیحدگی پسند رہنما کا قتل روکنے میں ناکام کیوں ہوئے؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ انھوں نے امریکہ اور کینیڈا میں کم از کم چار سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کرنے کے مبینہ منصوبے میں ایک انڈین باشندے پر فرد جرم عائد کی ہے۔ ادھر وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے انڈیا کو علاقائی شراکت دار کہتے ہوئے ان الزامات کو سنجیدہ قرار دیا ہے۔

ان الزامات کی کڑیاں اس سال کینیڈا میں سکھ کینیڈین شہری کے قتل ساتھ بھی جوڑے گئی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اس شہری کے قتل سے پہلے امریکہ کو اس منصوبے کے بارے میں کیا معلومات تھیں۔

چیک ریپبلک میں امریکی درخواست پر گرفتار انڈین شہری نکھل گپتا پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا نشانہ کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں تھے۔

اس سال ستمبر میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین شہری اور سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیب سنکھ نجر کے قتل میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا جس کی انڈیا نے تردید کی تھی۔

جب کینیڈین وزیر اعظم نے الزام لگایا تھا تو ان کا قریبی اتحادی امریکہ خاموش تھا۔ امریکی اہلکاروں نے خدشات ظاہر کیے تھے لیکن جسٹن ٹروڈو کے ساتھ ہم آواز نہیں ہوئے تھے نہ ہی انڈیا کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اب ہمیں یہ پتا ہے کہ انڈیا میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس کے بعد جب کینیڈا کے وزیر اعظم نے عوامی سطح پر یہ الزام لگایا تھا تو اس سے کئی ہفتے قبل امریکی حکام کو اس منصوبے سے منسلک تحقیقات کا علم تھا۔

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جی 20 کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر تشوید کا اظہار کیا تھا۔

’کینیڈا میں نجر کا قتل واحد منصوبہ نہیں تھا‘

امریکی پراسیکیوٹرز نے اس منصوبے کے ہدف کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم امریکی میڈیا کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ امریکی اور کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں کے قتل کا تھا جو امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں۔

پنوں نے اس مبینہ منصوبے پر بی بی سی ایشین نیٹ ورک سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’کیا انڈیا سرحد پار دہشتگردی استعمال کرنے کے نتائج کے لیے تیار ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جو بھی میرے قتل کی کوشش کر رہا تھا، چاہے اس میں انڈین سفارتکار یا انڈین را (انٹیلیجنس) کے ایجنٹس تھے، انھیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

سکھ برداری انڈیا میں ایک اقلیت ہے جو اس کی آبادی کا دو فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعض گروہ ’خالصتان‘ تحریک کا حصہ ہیں جو انڈیا میں الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں ایک مسلح بغاوت کے ساتھ اس مطالبے نے شدت اختیار کی تھی جسے بعد میں کچل دیا گیا اور اس سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم بیرون ملک سکھ برداری کے کچھ گروہ آج بھی خالصتان تحریک کا حصہ ہیں۔

امریکہ میں اس مبینہ قتل کے منصوبے سے قبل کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بغیر ظاہر کیے ’مصدقہ شواہد‘ کی طرف اشارہ کیا تھا جو جون کے دوران برٹش کولمبیا میں سکھ رہنما کے قتل کو انڈین حکومت سے جوڑتے ہیں۔ تاہم انڈیا نے اس قتل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کی تردید کی ہے۔

ٹروڈو نے کہا کہ بدھ کو فرد جرم عائد ہونے پر انڈیا کو یہ الزامات سنجیدگی سے لینے ہوں گے۔

انڈیا نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے الزام کو ’بے تکا‘ قرار دیا تھا اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید تناؤ آیا تھا اور جسٹن ٹروڈو پر اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت سامنے لانے کا دباؤ بھی بڑھ گیا تھا۔

لیکن امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے لگائے گئے فرد جرم سے ان کے دعوؤں کو وزن ملا ہے۔

اوٹاوا کی کارلٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر اسٹیفنی کارون نے کہا کے امریکہ کی طرف سے بتائے گئے ثبوت جسٹن ٹروڈو کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے زیادہ مضبوط ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چار افراد کو مارنے کی سازش تھی، کینیڈا میں تین (کو مارنے کی)۔۔۔۔ نجر کا قتل واحد (منصونہ) نہیں تھا۔‘

کیا ایسی انٹیلیجنس تھی جس کی بنیاد پر کاروائی ہو سکتی تھی

بدھ کو لگائی گئی فرد جرم کی وجہ سے ہردیب سنکھ نجر کی جان کو خطرات سے متعلق نئے سوالات سامنے آئے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ ہردیب سنگھ کو کینیڈا کی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بتا دیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے جس کے بعد جلد ہی ان کا قتل ہو گیا۔

لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس معلومات کا کتنا حصہ امریکہ کی انٹیلیجنس نے اپنے ’انڈر کوور آپریشن‘ سے ملنے والی معلومات سے فراہم کیا تھا۔

سینٹر فار انٹرنیشنل گورننس انویشن کے سینیئر ریسرچ فیلو ویزلی وارک نے بی بی سی کو بتایا ’ میرے لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ جو معلومات ایف بی آئی کے پاس ہے اسے فوری طور پر کینیڈین حکام کو نہ بتائی گئی ہو۔‘

ان کا کہنا ہے کہ امریکی اور کینیڈین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپس میں نہایت ’قریبی‘ تعلقات ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہردیب سنگھ نجر کے معاملے میں گرو پتونت سنگھ پنوں کے مقابلے ان کے پاس ایسی انٹیلیجنس نہیں تھی جس کی بنیاد پر وہ کوئی اقدام اٹھاتے۔

لیکن امریکہ کی طرح کینیڈا قتل کی واردات کو روکنے میں ناکام کیوں ہوا؟ انھوں نے کہا ’میرے خیال میں یہ بہت جلدی فرض کرنا ہوگا کہ نجر کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کے سلسلے میں کینیڈا کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں یا انٹیلی جنس میں کسی قسم کی بڑی خرابی تھی۔‘

ویزلی وارک کا کہنا ہے کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں ہونے والی فرد جرم اور کینیڈیا کے وزیر اعظم کے الزامات مل کر یہ بتاتے ہیں کہ شاید قتل کرنے لیے متعدد گروہ تھے لیکن ان میں سے ایک کی نشاندہی نہیں ہو سکی اور وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو گئے۔

سکھ رہنما کے قتل کے مبینہ منصوبے میں انڈین شہری گرفتار: ’ہٹ مین‘ جو دراصل امریکی ایجنٹ تھا

گرفتار انڈین شہری نکھل گپتا عرف ’نِک‘ پر الزام ہے کہ انھوں نے اس قتل کے لیے ایک ہٹ مین (کرائے کے قاتل) کی خدمات ایک لاکھ امریکی ڈالر کے عوض حاصل کرنے کی کوشش کی تھیں۔

امریکی پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ ہٹ مین درحقیقت ایک ’انڈر کوور‘ فیڈرل ایجنٹ تھا، یعنی یہ شخص خفیہ طور پر قانون نافذ کرنے والے امریکی ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔

52 سال کے نکھل گپتا چیک ریپبلک کی ایک جیل میں قید ہیں اور اُن کی امریکہ منتقلی زیر التوا ہے۔ پراسیکیوٹرز کی جانب سے عائد کیا گیا الزام ثابت ہونے کی صورت میں انھیں 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

نکھل سے مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ایک اہلکار نے براہ راست رابطہ کیا تھا۔ دستاویزات میں اُس انڈین اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس نے مبینہ قتل کے منصوبے کا معاملہ اعلیٰ سطح پر انڈیا کے ساتھ اٹھایا ہے جس پر انڈین حکام نے ’حیرانی اور تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔

امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن اس معاملے پر اس قدر تشویش میں مبتلا ہوئے کہ انھوں نے ڈائریکٹر سی آئی اے ولیم برنز اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس ایورل ہینز پر مشتمل امریکی اٹیلیجنس کے اعلیٰ حکام کو انڈیا سے بات کرنے کے لیے روانہ کیا۔

دریں اثنا انڈین حکومت نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

پراسیکیوٹرز نے کہا ہے کہ نکھل گپتا کو مئی کے دوران انڈین حکومت کے ایک ملازم نے بھرتی کیا تھا جن سے وہ دلی میں ملے تھے اور انھوں نے وہاں اس ممکنہ منصوبے پر بات چیت بھی کی تھی جبکہ بعد میں بعض اوقات گپتا انھیں ہندی میں وائس نوٹس بھیجا کرتے تھے۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق گپتا کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انڈیا میں ان کے خلاف زیر التوا ایک فوجداری کیس کا معاملہ حل کر دیا گیا ہے اور اب ’گجرات پولیس سے کوئی انھیں کال نہیں کرے گا۔‘ گپتا کو گجرات کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی بھی پیشکش کی گئی۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق انڈین حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’ہم ڈیڑھ لاکھ ڈالر دینے کو تیار ہیں۔۔۔ کام کے معیار کے حساب سے یہ آفر مزید اوپر جائے گی۔‘

فردِ جرم کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر یہ تجویز دی کہ وہ ہدف کے سامنے کلائنٹ بن کر جائیں گے تاکہ وہ انھیں ’ورغلا کر ایک جگہ پر لاسکیں جہاں انھیں باآسانی قتل کیا جا سکے گا۔‘

اس میں کہا گیا ہے کہ وہ نیو یارک شہر میں ایک ہٹ مین سے ملنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پھر وہ ایک انڈر کوور ایجنٹ سے ملے جس نے ایک لاکھ ڈالر کے بدلے قتل کرنے کی حامی بھری۔

امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر گپتا نے مبینہ طور پر ایک جرائم پیشہ شخص سے رابطہ کیا تھا جو کہ دراصل منشیات کی روک تھام کے ادارے ’ڈی ای اے‘ کا مخبر تھا۔ اس مخبر نے انھیں ہٹ مین سے ملایا جو ڈی ای اے کا انڈر کوور ایجنٹ تھا۔

امریکی حکام کے دستاویزات کے مطابق گپتا نے ایک لاکھ ڈالر ایڈوانس مانگے مگر انڈین اہلکار نے اس سے انکار کر دیا۔ گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ نیو یارک میں ان کے ساتھی کے پاس ہٹ مین کو ایڈوانس پیمنٹ (پیشگی ادائیگی) کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، لہذا انھیں ’یہیں دلی میں ادائیگی کی جائے۔‘

پراسیکیوٹر کے مطابق 9 جون کو انڈین اہلکار نے گپتا کو میسج بھیجا کہ ’بھائی جی۔۔۔ آج پیمنٹ ہو جائے گی۔ ہم ٹیم کو متحرک کرتے ہیں اور رواں ہفتہ وار چھٹیوں پر کام کر دیتے ہیں۔‘ گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ دوپہر تک ’پارسل‘ مل جائے گا۔ یوں اس قتل کے لیے مبینہ طور پر ایجنٹ کو 15 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی گئی۔

فرد جرم کی دستاویزات میں اس مبینہ ادائیگی کی تصویر شامل ہے۔ گپتا نے اس ادائیگی کا انڈین حکومت کے اہلکار کو بتایا جس نے ’او کے بھائی جی‘ کا میسج بھیجا۔

انڈیا، امریکہ سفارتی ملاقاتوں کے دوران قتل نہ کرنے کی ہدایت

پنوں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیب سنکھ نجر سے بھی رابطے میں رہتے تھے جنھیں جون کے دوران کینیڈا میں نقاب پوش مسلح شخص نے قتل کیا تھا۔

نجر کے قتل کے بعد گپتا کو مبینہ طور پر اس انڈین اہلکار کی طرف سے ایک ویڈیو بھیجی گئی جس میں نجر کی ’خون سے لت پت لاش ان کی گاڑی میں‘ دیکھی جا سکتی ہے۔

فرد جرم کے مطابق انڈین اہلکار نے پھر دوسرے ہدف کا پتہ گپتا کو بھیجا تھا۔

گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو بتایا کہ ’نجر بھی اہداف میں شامل تھے‘ اور ’ہمارے کئی اہداف ہیں‘۔

نجر کے قتل کے بعد انھوں نے مبینہ طور پر کہا ’اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں۔‘ انڈین اہلکار کی طرف سے مبینہ طور پر گپتا کے ساتھ ایک خبر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ ’یہ اب ترجیح ہے‘۔

امریکی پراسیکیوٹر کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو ہدایت دی تھی کہ یہ قتل امریکہ اور انڈیا کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں اور رابطوں کے دوران نہیں کیا جانا چاہیے۔

گپتا نے اس ’ہٹ مین‘ کو سمجھایا بھی تھا کہ ہدف ایک سماجی کارکن ہے جس کی موت کے بعد مظاہرے ہو سکتے ہیں اور اس سے ’سیاسی معاملات‘ پیدا ہو سکتے ہیں۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ گپتا نے ڈی ای اے کے مخبر اور انڈر کوور ایجنٹ کو بارہا بتایا تھا کہ انڈیا سے ان کے ساتھ شریک منصوبہ ساز وسائل رکھتے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔

گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ قاتل کی زندگی اس ہدف سے بدل جائے گی کیونکہ ’ہمارے پاس اس سے بھی بڑے کام ہیں۔ ہر مہینے دو سے تین کام۔‘

29 جون کو گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس انٹیلیجنس معلومات ہے کہ ہدف اپنے گھر واپس آ چکا ہے اور آج ہر صورت باہر نکلے گا۔ ایجنٹ کو کہا گیا کہ ہو سکے تو قتل کے بعد کے مناظر بنائے جائیں۔

30 جون کو گپتا انڈیا سے چیک ریپبلک گئے جہاں انھیں امریکہ کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی امریکہ منتقلی کا معاملہ فی الحال زیر التوا ہے۔

اس مبینہ منصوبے کو ناکام بنانے میں امریکہ میں منشیات کی روک تھام کے ادارے ڈی ای اے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایڈمنسٹریٹر ڈی ای اے این ملگرام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک غیر ملکی حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر ’انٹرنیشنل نارکوٹکس ٹرافیکر کو امریکی سرزمین پر امریکی شہر کے قتل کو بھرتی کیا جسے ڈی ای اے نے ناکام بنایا۔‘

امریکی اٹارنی ڈیمین ولیمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں شکر گزار ہوں کہ میرے دفتر اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے شراکت داروں نے اسے ناکام بنایا۔‘

’ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ جو بھی یہاں یا بیرون ملک امریکیوں کو نقصان پہنچانے اور خاموش کرنے کی کوشش کرے گا، ہم اسے ناکام بنائیں گے، اس کی تحقیقات کریں گے اور اس پر کارروائی ہو گی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں