گلگت بلتستان: چلاس بس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کرلی

اسلام آباد (ش ح ط) صوبہ گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں بس پر حملے کے بعد دیامر پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے 17 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا۔

چلاس میں ہفتے 2 دسمبر کی شب مسافر بس پر نامعلوم مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو فوجیوں سمیت 10 افراد ہلاک اور 5 فوجیوں سمیت 26 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں تین شیعہ افراد بھی شامل ہے۔ جبکہ زخمیوں میں جامع مسجد غذر کے خطیب و اہلِسنت کے معروف عالم مولانا شیر زمان بھی شامل ہے۔

فائرنگ سے بس بے قابو ہو کر سامنے سے آنے والی ٹرک سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ٹرک کا اگلا حصہ مکمل طور پر جل گیا تھا جبکہ ٹرک کا ڈرائیور جھلس کر ہلاک ہوا۔

ایف آئی آر میں دہشتگردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں اور ابتدائی طور پر 17 مشتبہ افراد کو تحویل میں لیا گیا ہے، جن سے پوچھ گچھ کا عمل جاری ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے کمشنر دیامر کے پبلک ریلیشنز آفیسر (پی آر او) نے بتایا کہ دیامر کے ایس ایچ او عظمت شاہ نے نامعلوم مسلح افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کردیا گیا ہے اور علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے دیامر بھر میں سرچ آپریشن شروع کردیا ہے اور شاہراہ قراقرم پر ٹریفک آج معطل رہے گی۔

ادھر چلاس بس پر حملے کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے قبول کرلی ہے۔

کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی چترال ونگ کے ترجمان ابو حسین علوی نے ڈیلی اردو کے چیف ایڈیٹر شبیر حسین طوری کو ای میل کرتے ہوئے چلاس بس پر ہونے والے حملے کی ذمہ دار قبول کرلی ہے۔

ترجمان ابو حسین علوی نے اپنے ای میل میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں شیعہ برادری اور فوج کو ٹارگٹ کیا گیا۔

ترجمان نے اپنے ای میل میں مزید دعویٰ کیا ہے کہ اس سے قبل ہمارے ساتھیوں نے چترال کے علاقے غذر میں ایک شیعہ معلم کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور اس کارروائی کے بعد پولیس نے ہمارے ساتھیوں کا تعاقب کیا تو ہمارے ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ کرکے ایک ایس ایچ او کو ہلاک اور 2 اہلکاروں کو زخمی کیا۔

گلگت بلتستان کے اہلِسنت اور اہلِ تشیع رہنماؤں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں