خالصتان: کیا بھارت نے اپنے سفارت خانوں کو”خفیہ میمو” بھیجا؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارت نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی نے شمالی امریکہ کے بھارتی سفارت خانوں کو ایک ‘خفیہ میمو’ بھیجا تھا اور اس میں خالصتانی عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کو کہا گیا تھا۔

بھارتی حکومت نے اس میڈیا رپورٹ کو مسترد کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے شمالی امریکہ میں بھارتی سفارت خانوں کو ایک ‘خفیہ میمو’ بھیجا تھا، جس میں حکم دیا گیا تھا کہ وہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر سمیت خالصتان کی مہم میں شامل افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کریں۔

امریکہ کے ایک غیر منافع بخش میڈیا ادارے ‘دی انٹرسیپٹ’ کا دعویٰ ہے کہ بھارتی حکومت نے مبینہ طور پر اپریل میں اپنے قونصل خانوں کو مغربی ممالک میں خالصتانی مہم کے حامیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔

دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس مبینہ خفیہ میمو میں سکھ رہنما نجر سمیت کئی سکھ علیحدگی پسند سکھ رہنماؤں کے نام شامل ہیں، جن کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اس پر بھارت کے سکریٹری خارجہ ونے کواترا کے دستخط تھے۔

بھارت کا رد عمل

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے اس مبینہ رپورٹ کو ”جعلی” اور ”مکمل طور پر من گھڑت” قرار دیا اور ”پاکستانی انٹیلیجنس کی طرف سے جعلی بیانیہ کو پھیلانے” کے لیے میڈیا اداروں پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ بھارت کے خلاف مسلسل غلط معلومات پھیلانے کی مہم کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس طرح کی رپورٹس جعلی اور مکمل طور پر من گھڑت ہیں۔ ایسا کوئی میمو نہیں ہے۔ یہ بھارت کے خلاف مسلسل غلط معلومات پھیلانے کی مہم کا حصہ ہے۔ زیر بحث میڈیا ادارہ پاکستانی انٹیلیجنس کے جعلی بیانات کو پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، ”جن لکھنے والوں نے پوسٹس شیئر کی ہیں، ان سے اس تعلق کی تصدیق ہوتی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی جعلی خبروں کو پھیلاتے ہیں وہ اپنی ساکھ کی قیمت پر ہی ایسا کرتے ہیں۔”

واضح رہے کہ اتوار کے روز انٹرسیپٹ کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی اور اس کے فوری بعد ہی بھارت نے اپنا رد عمل ظاہر کیا اور امریکی میڈیا ادارے کی رپورٹ کو پوری طرح سے مسترد کر دیا۔

تاہم ایک بھارتی میڈیا ادارے ‘دی پرنٹ’ نے جب انٹرسیپٹ سے اس بارے میں استفسار کیا تو انٹرسیپٹ کے ایک ترجمان نے دی پرنٹ کو بتایا کہ ”ہم اپنی رپورٹ اور اپنے رپورٹرز کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ اپنے ذرائع کی حفاظت کے لیے ہم دستاویز جاری نہیں کریں گے۔”

واضح رہے کہ خالصتانی تحریک کے ایک معروف سکھ رہنما نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بارے میں اوٹاوا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قتل میں ”بھارتی سرکاری ایجنٹ” ملوث تھے۔

نجر کالعدم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے۔ انہیں کینیڈا کے برٹش کولمبیا صوبے کے سرے میں دو نامعلوم مسلح افراد نے ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس قتل کی وجہ سے ستمبر میں بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازعہ پیدا ہو گیا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے۔

بھارت نے کینیڈا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو کی حکومت سے کہا کہ وہ اپنے الزامات کی حمایت کے لیے ثبوت پیش کرے۔

حال ہی میں امریکہ نے بھی بھارت پر اسی طرح کے الزامات عائد کیے ہیں اور کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نیویارک میں مقیم ایک سکھ رہنما گروپریت پنون کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کر رہی تھیں، جسے ناکام بنا دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں