بھارتی ریاست آسام میں 1281 مدارس ’مڈل انگلش سکولز‘ میں تبدیل

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کی ریاست آسام کی حکومت نے 1281 مدارس کا نام بدل کر انھیں ’مڈل انگلش سکولز‘ کا نام دے دیا ہے۔

ڈائریکٹر آف ایلیمنٹری ایجوکیشن آسام کے دفتر نے بدھ کو ایک حکم نامہ جاری کر کے ان تمام سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ مدارس پر پابندی لگا دی ہے اور مڈل سکول مدارس کو فوری طور پر عام سکولوں میں تبدیل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

آسام کے وزیرِ تعلیم رانوج پیگو نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’آج ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 1,281 مڈل انگلش مدارس کے نام تبدیل کر کے مڈل انگلش سکول کر دیے گئے ہیں۔‘

آسام میں یہ مدارس کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں اور ان کی بندش پر نہ صرف تنازع کھڑا ہوا ہے بلکہ ایک بڑا طبقہ بی جے پی حکومت پر تقسیم کرنے والی سیاست کرنے کا الزام بھی لگا رہا ہے۔

آل آسام مدرسہ سٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے سابق صدر وحید الزمان کے مطابق ان مدارس کو بند کرنے کا مطلب وہاں پڑھنے والے طلبا کے ساتھ ناانصافی کرنا ہے۔

وحید الزمان کہتے ہیں کہ ’مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ جن مدارس کو حکومت نے سکولوں میں تبدیل کیا ہے، وہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، انگریزی، سماجی علوم جیسے عمومی مضامین بھی پڑھائے جا رہے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے بہت سے طلبا ڈاکٹر، وکیل اور دیگر مقبول پیشوں میں جا چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ ایک مخصوص قسم کی سیاسی سوچ کے تحت لیا گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے جب ہمانتا بسوا سرما کانگریس حکومت میں وزیر تعلیم تھے تو انھوں نے مدارس کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد وہ بالکل بدل چکے ہیں۔‘

دراصل آسام میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے سنہ 2020 میں ہی تمام سرکاری مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آسام حکومت کی کابینہ نے 13 نومبر 2020 کو ایک میٹنگ کی اور صوبائی سطح پر اس کی منظوری دی گئی۔ مدارس کو باقاعدہ ہائی سکولوں میں تبدیل کرنے اور ان مدارس میں دینی مضامین کی تعلیم واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

کابینہ کے اس فیصلے کے دوران وزیرِ اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔

اس کے بعد سنہ 2021 میں مدارس کی تعلیم سے متعلق دو ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون بنا کر تمام سرکاری اور صوبائی مدارس کو بند کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔

اس طرح 27 جنوری 2021 کو آسام کے گورنر کی رضامندی سے آسام مدرسہ تعلیم ایکٹ 1995 اور آسام مدرسہ تعلیم (اساتذہ کی خدمات کی صوبائیت اور تعلیمی اداروں کی تنظیم نو) ایکٹ 2018 کو منسوخ کر دیا گیا۔

مدارس کی قانونی حیثیت

گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں آسام میں سرکاری مدارس کی بندش سے متعلق ریاست کی جانب سے قانون سازی اور انتظامی فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔

تاہم اس کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے چار فروری 2022 کو رٹ پٹیشن کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ آسام حکومت کی طرف سے بنایا گیا آسام ریپیل ایکٹ 2020 درست ہے۔

فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

گوہاٹی ہائی کورٹ میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ اے آر بھویان کہتے ہیں کہ ’جن مدارس کو سکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہ مکمل طور پر مدارس نہیں تھے۔ ان مدارس میں ہائی سکول میں پائے جانے والے تمام مضامین عربی نصاب کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔

’لیکن حکومت کہتی ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ اس وجہ سے ان مدارس کو عام سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن حکومت انڈیا کے آئین کی طرف سے دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے، خاص طور پر آرٹیکل 25، 29 اور 30 کے تحت۔

’مدارس میں کیا پڑھایا جائے گا یہ حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہے اور اب ہم سماعت کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

آسام حکومت نے تمام سرکاری مدارس کے ساتھ سرکاری سنسکرت مراکز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھویاں بتاتے ہیں کہ ’ریاستی حکومت نے تمام سنسکرت مراکز کو کمار بھاسکر ورما یونیورسٹی آف سنسکرت اور قدیم علوم میں ضم کر دیا ہے جبکہ سنسکرت ٹولوں کے نصاب اور نصاب میں زیادہ تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔‘

مدرسہ کے معاملے کے پیچھے سیاست

آسام میں دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک سرکاری تسلیم شدہ مدرسہ جو مکمل طور پر سرکاری گرانٹ سے چلایا جاتا تھا اور دوسرے جو پرائیویٹ ادارے چلاتے تھے۔

مدرسوں کی تعلیم کو 1934 میں آسام کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا تھا اور اسی سال ریاستی مدرسہ بورڈ بھی تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم ریاستی مدرسہ بورڈ کو 12 فروری 2021 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے تحلیل کر دیا گیا تھا۔

آسام میں مدارس کو حکومت نے سنہ 1995 میں سرکاری حیثیت دی تھی۔ حکومت کے تعاون سے چلنے والے ان مدارس کو ’پری سینیئر، سینیئر اور ٹائٹل‘ مدارس میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پری سینیئر مدرسوں میں چھٹی سے آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی۔ سینیئر مدارس میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی اور ٹائٹل مدارس میں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر تعلیم دی جاتی تھی۔

اس کے علاوہ ریاست میں چار عربی کالج بھی تھے جن میں چھٹی کلاس سے پوسٹ گریجویٹ کی سطح تک تعلیم دی جا رہی تھی۔

تاہم یہ تمام مدارس اور عربی کالج آسام حکومت کے سال 2020 میں منسوخی ایکٹ لانے سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت ان مدارس پر سالانہ تقریباً تین سے چار کروڑ روپے خرچ کر رہی تھی۔

اس وقت آسام میں سات بورڈز کے تحت کُل 2250 پرائیویٹ مدارس چل رہے ہیں۔ آل آسام تنظیم مدارس قومیہ کے تحت سب سے زیادہ 1503 نجی مدارس ہیں۔

آل آسام تنظیم مدارس کے سیکریٹری مولانا عبدالقادر قاسمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ اپنے ہی الفاظ کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ سائنس اور ریاضی جیسے عام مضامین کو نجی مدارس میں پڑھایا جانا چاہیے جبکہ جن سرکاری مدارس کو وہ بند کر رہے ہیں وہاں عربی اردو کے علاوہ تمام عمومی مضامین پڑھائے جا رہے تھے۔‘

جب وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ’جب حکومت خود کہتی ہے کہ ہم مدارس میں مُلاّ اور مولوی نہیں بنائیں گے تو یہ سن کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔

’وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا عبدالکلام آزاد تھے جنھوں نے ملک کی تعلیم کے لیے پالیسیاں بنائی تھیں۔ سب جانتے ہیں کہ مدارس کو ایشو بنانے کے پیچھے کیا سیاست ہے؟‘

مدارس پر تنازع اور نئے قواعد

وزیر اعلیٰ سرما 2020 سے کئی تقاریب میں مدارس کے حوالے سے جارحانہ بیانات دے رہے ہیں۔

اس سال مارچ میں کرناٹک کے بیلگاوی میں بی جے پی کی وجے سنکلپ یاترا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’میں نے 600 مدارس کو بند کر دیا ہے لیکن میرا ارادہ تمام مدارس کو بند کرنے کا ہے کیونکہ ہمیں مدارس کی ضرورت نہیں ہے۔

’ہمیں ڈاکٹر اور انجینیئر پیدا کرنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیز کی ضرورت ہے۔‘

ان مدارس میں ہونے والی تعلیم کے حوالے سے ماضی میں کچھ تنازعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔

بنیاد پرست ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں باقاعدہ سکول نہیں ہیں، بعض مدارس میں بنیاد پرست اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔

پچھلے سال آسام میں چار مدارس کو ملک دشمن اور جہادی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں منہدم کر دیا گیا تھا۔

اس سال فروری میں آسام پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے نجی مدارس چلانے والے لوگوں کے ساتھ میٹنگ کے بعد کچھ اصول طے کیے تھے۔

ان قوانین کے تحت پانچ کلومیٹر کے دائرے میں صرف ایک مدرسہ ہو گا۔ جن مدارس میں 50 سے کم طلبا ہوں گے وہ اپنے آپ کو قریبی کسی بڑے مدرسے میں شامل کر لیں گے۔

اس کے علاوہ مدارس میں زیر تعلیم طلبا ان کے والدین، ہیڈ ماسٹر سمیت تمام اساتذہ کے بارے میں مکمل معلومات حکومت کو وقتاً فوقتاً فراہم کرنی ہوں گی۔

بی جے پی کیا کہتی ہے؟

ریاست میں سرکاری مدارس کی بندش کے بارے میں آسام کے سینیئر بی جے پی لیڈر پرمود سوامی نے کہا ہے کہ مذہبی تعلیم سرکاری گرانٹ سے نہیں دی جا سکتی۔

ان کے مطابق ’اسی لیے سرکاری مدارس کو آسام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا مقصد مسلمان بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔ تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر اور انجینیئر بن کر دوسرے بچوں کی طرح ملک کی خدمت کر سکیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ اقلیتی بچوں کے مفاد میں کیا ہے۔‘

سیاسی ارادوں پر اٹھائے گئے سوالات پر انہوں نے کہا کہ ’ہماری پارٹی مسلم کمیونٹی کو ووٹ بینک کی سیاست کے لیے استعمال نہیں کرتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی سیاست نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے نجی مدارس پر کوئی کارروائی نہیں کی ’نجی مدارس مذہبی تعلیم کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘

آسام کے 1281 سرکاری مدارس جنھیں سکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہ کل 19 اضلاع میں تھے۔

بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل آسام کے دھوبری ضلع میں سب سے زیادہ 269 مدارس کو جنرل سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جبکہ ضلع ناگون میں 165 مدارس اور بارپیٹا کے 158 مدارس کو اب جنرل سکولوں میں ضم کر دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں