انڈونیشیا: روہنگیا پناہ گزین کیمپ پر طلبہ کا دھاوا

جکارتہ(ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے). انڈونیشیا کے شہر بندا آچے میں سینکڑوں طلبہ نے ایک روہنگیا پناہ گزین مرکز پر دھاوا بول دیا اور ‘انہیں ملک سے باہر نکالو’ کے نعرے لگائے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیاؤں کے خلاف آن لائن مہم کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔

انڈونیشیا کی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں طلبا کے ایک ہجوم نے بدھ کے روز مغربی صوبے بندا آچے میں روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک عارضی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے وہاں موجود 100 سے زائد پناہ گزینوں کو پناہ گزین مرکز چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ میانمار میں ستائے جانے والے اقلیتی گروپ کے خلاف تفریقی سلوک کا یہ تازہ واقعہ ہے۔

کیمپ پر دھاوا بولنے والے طلبہ نے پناہ گزینوں کو ملک سے نکال باہرکرو کے نعرے لگائے اور انہیں فوراً ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ نومبر کے وسط کے بعد سے 1500 سے زائد روہنگیا پناہ گزین آچے کی ساحل پر پہنچے ہیں، جو اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے آٹھ سال میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آمد ہے۔

مقامی لوگوں نے ان روہنگیاؤں کی بعض کشتیوں کو ساحل پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی اور بعض معاملات میں انہیں دوبارہ سمندر میں لوٹ جانا پڑا۔

بدھ کے روز پیش آنے والے واقعے کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پناہ گزینوں کو کیمپ سے باہر لے جایا جارہا ہے اور انہیں ٹرکوں پرلادا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ پلاسٹک کی تھیلیوں میں اپنا سامان اپنے ساتھ لے جارہے تھے۔

طلبہ نے انڈونیشیا کی مختلف یونیورسٹیوں کے نشانات والی جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ان طلبہ کو پناہ گزینوں کے سامانوں کو پھینکتے ہوئے دیکھا جاسکتا جب کہ فرش پر بیٹھے مرد، خواتین اور بچے رو رہے تھے۔

بہتر زندگی کی امید میں انڈونیشیا آمد

سرکاری ملکیت والے ہال میں تقریباً 137 روہنگیا مقیم تھے۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ انہیں مقامی امیگریشن دفتر میں منتقل کیا جائے اور پھر ملک بدر کردیا جائے۔

طلبہ نے “انہیں ملک سے باہر نکال دو” اور “آچے میں روہنگیاؤں کو مسترد کرو” جیسے نعرے لگائے۔ دوسری طرف مرد، عورتیں اور بچے بلکتے ہوئے طلبہ سے رحم کی درخواست کررہے تھے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ غلط اطلاعات اور نفرت انگیز تقاریر کی مربوط آن لائن مہم کے نتیجے میں پیش آیا۔

اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا،” ہجوم نے پولیس کا حصار توڑ دیا اور 137 پناہ گزینوں کو زبردستی دو ٹرکوں پر ٹھونس کر بندہ آچے میں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد مہاجرین خوف اور صدمے سے دوچار ہیں۔”

حالانکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ماضی میں آچے میں دہائیوں تک چلنے والے خونی تصادم کے شاہد ہیں اور انہیں پناہ گزینوں سے دلی ہمدردی ہے۔

روہنگیا انڈونیشیا میں کیوں پناہ لے رہے ہیں؟

مغربی میانمار میں رہنے والے مسلمان روہنگیاؤں کو تفریقی سلوک اور ظلم و زیادتیوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔

وہ پڑوسی ملک تھائی لینڈ اور مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا اور ملائشیا میں پناہ لینے کے لیے کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نومبر اور اپریل کے درمیان سفر کرتے ہیں جب سمندر نسبتاً پرسکون ہوتا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر سے اب تک پندرہ سو سے زیادہ روہنگیا انڈونیشیا پہنچے ہیں، جو کہ حالیہ برسوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی آمد نے مخالفت کو جنم دیا ہے اور مقامی لوگ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ناراض ہیں۔

انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ وہ میانمار کے پناہ گزینوں کو پناہ دینے کا پابند نہیں ہے۔

انڈونیشیا کے صدر جو کوودودو نے روہنگیاؤں کی آمد میں حالیہ اضافے کے لیے انسانی اسمگلنگ کو ذمے دار قرار دیا تھا۔ تاہم انہوں نے بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے انہیں عارضی پناہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں