ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کی جنرل موسوی کی تدفین میں شرکت

تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے جمعرات کے روز تہران میں پاسداران انقلاب (IRGC) کے ایک سینئر مشیر جنرل سید رضی موسوی کی نماز جنازہ کی امامت کی جس کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ وہ شام میں اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا کہ ملک کےروحانی رہنماخامنہ ای نے موسوی کی انتھک جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کیا۔

انقلابی گارڈز کور (IRGC) کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ موسوی مزاحمتی محاذ کے سب سے تجربہ کار اور باثر کمانڈروں میں سے ایک تھے۔

سلامی نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے جنازے سے خطاب میں کہا کہ “سید رضی کی شہادت کا ہمارا بدلہ صیہونی حکومت کے خاتمے سے کم نہیں ہو گا”، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے تقریباً 33 سال تک مسلم قوم کا دفاع کیا تھا۔

جنازے میں شریک سوگواروں نے ’’امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ موسوی کی میت کو تہران میں تدفین کے لیے لے جانے سے قبل بدھ کے روز شام سے عراق کے مقدس شہر نجف لے جایا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے پیر کے روز موسوی کی موت کے بارے میں تخصیص سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن کہا کہ اس نے (اسرائیلی فوج نے) ملک کے دفاع کے لیے جو بھی اقدام کرنا ضروری تھا، وہ کیا ہے۔

یران نے موسوی کو جنرل قاسم سلیمانی کےایک قریبی ساتھی کے طور پر بیان کیا جو ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ تھے اور جنوری 2020 میں عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

شام میں، جنرل سید رضی موسوی کی ہلاکت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب لبنان۔اسرائیل سرحد کے ساتھ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں مسلسل شدت اختیار کر رہی ہیں اور ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ اسرائیل-حماس جنگ علاقے میں پھیل کر ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کو بھی ملوث نہ کر لے۔

7 اکتوبر کو اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے، ایران کے حمایت یافتہ گروپوں نے اسرائیل کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ عراقی ملیشیاؤں سمیت دیگر گروپوں نے وہاں ان امریکی قیادت والی اتحادی فورسز کی تنصیبات پر حملوں کی دھمکی دی ہے، جو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کا صفایا کرنے کے لیے وہاں ہیں۔

برسوں سے، اسرائیل شام میں ایران سے منسلک اہداف کے خلاف حملے کرتا رہا ہے، جہاں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت کے بعد سے تہران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

موسوی کی ہلاکت ایران کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں