بھارت کا پاکستان سے حافظ سعیدکی حوالگی کا مطالبہ، دفتر خارجہ نے تصدیق کردی

اسلام آباد (ڈیلی اردو) دفتر خارجہ نے کالعدم جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی حوالگی سے متعلق بھارتی مطالبے کی تصدیق کردی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے بھارت کی حافظ سعید کی حوالگی کی درخواست وصول کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارت نے یہ درخواست نام نہاد منی لانڈرنگ کیس میں دی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ملزمان کی دوطرفہ حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال لاہور کی عدالت نے غیر قانونی فنڈنگ کے کیسز میں حافظ سعید احمد کو 31 برس قید کی سزا سنائی تھی۔

قبل ازیں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کے ملک نے پاکستان سے باضابطہ طور پر درخواست کی ہے کہ حافظ سعید کو 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں ٹرائل کے لیے بھارت کے حوالے کیا جائے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق ترجمان ارندم باغچی نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے متعلقہ معاون دستاویزات کے ساتھ حافظ سعید کی حوالگی کی درخواست حکومت پاکستان کو بھیج دی ہے۔‘

بھارت میں حافظ سعید کے خلاف کیس

حافظ محمد سعید بھارت کو انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک ہیں، جس نے انہیں دہشت گردوں کی ٹاپ فہرست میں درج کر رکھا ہے۔ ان پر سن 2008 کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ کی طرف سے 10 ملین ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا تھا۔

بھارت سن 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے کے لیے پاکستان کے معروف عالم دین اور لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔ اس حملے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

البتہ حافظ سعید اس حوالے سے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہیں اور حملوں سے انکار کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے دعووں کے باوجود انہیں کئی سالوں سے مختلف قانونی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔

انہیں پہلی بار جولائی سن 2019 میں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پاکستان کے جائزے سے چند ماہ قبل 11 برس کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ تاہم بعد میں وہ بری ہو گئے۔

رواں برس اپریل میں ایک پاکستانی عدالت نے حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے کے الزام میں 31 برس قید کی سزا سنائی تھی، تاہم وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق سن 2017 میں نظر بندی سے رہا ہونے کے بعد سے وہ آزاد رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں