ایران: ہم دہشت گردانہ حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

تہران + واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایرانی سرزمین پر یہ مہلک ترین حملہ تھا، جس میں گزشتہ روز کم از کم 84 افراد مارے گئے تھے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان خونریز دھماکوں کا ذمہ دار کون ہے؟

بدھ کے روز ایران کے شہر کرمان میں دو بم دھماکے ہوئے اور قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر جمع ہونے والے سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ قاسم سلیمانی ایک اعلیٰ ایرانی جنرل تھے، جو سن 2020 کے دوران ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔

گزشتہ روز ہونے والا حملہ اسلامی جمہوریہ ایران کی 45 سالہ تاریخ میں ہونے والا سب سے مہلک ترین حملہ تھا۔ ایرانی حکام نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ اس حملے میں کم از کم 103 افراد مارے گئے ہیں لیکن بعد میں دو مرتبہ اس تعداد کو کم کیا گیا۔ تاہم سینکڑوں افراد زخمی ہیں اور ان میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اب بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایرانی حکومت نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے اور جمعرات کو قومی سطح پر سوگ منایا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ جو بھی ذمہ دار ہو گا اسے ”سخت جواب‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

صدر ابراہیم رئیسی نے بھی فیصلہ کن جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، ”بلاشبہ اس بزدلانہ فعل کے مرتکب افراد اور ان کے قائدین کی جلد ہی شناخت کر کے انہیں سزا دی جائے گی۔‘‘

اقوام متحدہ، یورپی یونین، جرمنی، سعودی عرب، اردن اور عراق سمیت متعدد ممالک نے ان دھماکوں کی مذمت کی ہے۔

امریکہ نے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کردیا

تہران حکومت نے کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر اس حملے کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر عائد کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن نے کسی بھی ملک کی طرف سے عائد کردہ ایسے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ”امریکہ کسی بھی طرح سے اس میں ملوث نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں کہ اس دھماکے میں اسرائیل ملوث تھا۔‘‘

امریکہ کی کلیمسن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ امور کے ماہر آرش عزیزی کے مطابق بھی اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایران میں ہونے والے دھماکوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے، ”اسرائیل فی الحال ایران کے ساتھ فوجی تصادم کا خواہاں نہیں ہے اور اسرائیل نے کبھی بھی ایران میں معصوم شہریوں کے خلاف حملے نہیں کیے۔‘‘

دوسری جانب عزیزی نے ان شبہات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اسرائیل ماضی میں ایران کے جوہری پروگرام پر کام کرنے والے سائنسدانوں یا ایران کے اندر یا باہر پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) کے ارکان کو نشانہ بنانے میں ملوث رہا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا، ”ان حملوں میں شہری ہلاکتوں سے گریز کیا گیا تھا۔‘‘ نیز ایرانی حکام کے مطابق بدھ کے بم دھماکوں میں آئی آر جی سی کا کوئی کمانڈر یا اعلیٰ عہدے دار ہلاک نہیں ہوا۔

قاسم سلیمانی کون تھے؟

آرش عزیزی کتاب ”دی شیڈو کمانڈر‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں جنرل سلیمانی اور ایران کے عالمی عزائم پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سلیمانی پاسداران انقلاب میں ایک اعلیٰ عہدے دار اور ایلیٹ قدس فورس کی کمانڈر تھے۔ ایران کی یہ فورس ایران کے بیرون ملک فوجی آپریشنز کی ذمہ دار ہے۔

تہران نے قدس فورس کو ایران دوست سیاسی گروہوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایرانی فوجی اور سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کا کام سونپ رکھا ہے۔ سلیمانی کو شام اور عراق جیسے ممالک میں ایرانی مداخلت کا کلیدی کھلاڑی سمجھا جاتا تھا اور وہ ضرورت پڑنے پر تیزی سے شیعہ ملیشیا کو متحرک کرنے میں کامیاب بھی رہے تھے۔

3 جنوری 2020 کو یہ 62 سالہ فوجی کمانڈر امریکی ڈرون حملے میں اس وقت مارے گئے تھے، جب وہ عراق کے دورے پر تھے۔ قدس فورس براہ راست ایران کے سپریم لیڈر کو رپورٹ کرتی ہے اور اسے ملکی تیل کی آمدنی تک رسائی حاصل ہے۔

حملوں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟

عزیزی کے مطابق اس بات کے قوی آثار ہیں کہ ان دھماکوں کے پیچھے نام نہاد ”اسلامک اسٹیٹ‘‘ یا داعش کی علاقائی شاخ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے پھٹنے والے ان دونوں بموں کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کرنا تھا۔

عزیزی کے مطابق، ”یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پہلا بم ایک میوزیم کے پاس رکھا گیا تھا، جس کی عمارت کبھی زرتشتی مندر ہوا کرتی تھی۔‘‘ عزیزی کا کہنا ہے کہ مقامی داعش نہ صرف زرتشتی مذہب بلکہ ایران، ایرانی ثقافت اور شیعہ اسلام کو بھی سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔

تاہم ابھی تک اس گروہ نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

برلن میں سینٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ گلوبل آرڈر کے بانی اور ڈائریکٹر علی فتح اللہ نژاد کہتے ہیں کہ بظاہر ایرانی حکومت باہر سے مضبوط نظر آتی ہے لیکن ”اگر آپ قریب سے دیکھیں تو یہ بہت کمزور ہے۔‘‘ وہ بھی کہتے ہیں کہ اس حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں