انڈیا میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک بن گیا: اس ڈورن میں خاص کیا ہے؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ نے انتہائی جدید 31 پریڈیٹر ڈرون اور اس میں استعمال ہونے والے محضوص ساخت کے میزائل اور لیزر بم انڈیا کو فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ای کیو 9 بی سکائی گارڈین ساخت کے 31 ڈرون اور میزائلوں اور دیگر متعلقہ ساز وسامان کی قیمت تقر یباً چار ارب ڈالر ہے۔ انڈیا امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد آئندہ چند مہینوں میں میزائلوں سے لیس پرڈیٹر ڈرون حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک ہو گا۔

جمعرات کو پینٹاگان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی ’ڈیفنس سکیورٹی کواپریشن ایجنسی نے مطلوبہ منظوری ملنے کے بعد کے بعد کانگریس کو اس ممکنہ فروخت کے بارے میں امریکی کانگریس کو مطلع کر دیا ہے۔‘

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ جون میں واشنگٹن کے اپنے دورے میں ان ڈرونز کی خریداری کے بارے میں بات چیت کی تھی۔

ڈیفنس سکیورٹی کواپریشن ایجنسی کے مطابق 3 اعشاریہ 99 ارب ڈالر کے اس معاہدے کے تحت انڈیا نے 31 ایم کیو- 9 بی سکائی گارڈین ڈرون ، 161 ایمبیڈیڈ گلوبل پوزیشننگ اور انرشیل نیوی گیشن سسٹم، 170 اے جی ایم -114 آر ہیل فائر مزائل ، 16 ایر ٹریننگ مزائل 310 چھوٹی ساخت کے لیزر بم اور گراؤنڈ کنٹرول سٹیشن ، میزائل لانچر اور دیگر ساز و سامان خریدنے کی درخواست کی تھی۔

پینٹاگان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا انڈو پیسیفک اور جنوبی ایشیا میں سیاسی استحکام، امن اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑی طاقت ہے۔ مجوزہ فروخت کے ذریعے امریکہ – انڈیا سٹریٹیجک تعلقات کی مضبوطی اور ایک اہم دفاعی پارٹنر کی سلامتی کو بہتر کرنے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور اس کی قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی۔‘

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈرون اور متعلقہ ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت سے خطے کےبنیادی فوجی توازن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس ساخت کے مسلح ڈرون کسی ملک کے پاس نہیں ہیں۔ جدید ساخت کے سکائی گارڈین پریڈیٹر ڈرون امریکہ کی جنرل ایٹومکس ایروناٹیکل کمپنی بناتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق ایم کیو – 9 بی سکائی گارڈین ڈرون جدید ترین ڈرون طیارہ ہے۔ اس کے ذریعے پوری دنیا میں خفیہ معلومات، جاسوسی اور نگرانی کی جا سکتی ہے۔ یہ مصنوعی سیارے کے توسط سے فضا میں ہر طرح کے موسم اور دن اور رات میں 40 گھنٹے سےزیادہ دیر تک پرواز کر سکتا ہے۔ یہ زمین ، سمندر اور فضا میں اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ سکائی گارڈین ڈرون پہلے کے پریڈیٹر سے ذرا زیادہ ایڈوانسڈ قسم کے طیارے ہیں۔ ان کا ٹُو اِن ون رول ہے۔ یہ نگرانی بھی کرتے ہیں اور حملہ بھی کرتے ہیں۔ انڈیا کو جو 31 ڈرون ملیں گے ان میں سے 15 ’سی گارڈین‘ ڈرون بحریہ کو ملیں گے اور 8-8 ڈرون انڈین فضائیہ اور بری فوج کو جائیں گے ۔ راہل کے مطابق ’یہ ڈرون جب انڈیا کو ملیں گے تو یہ بیشتر بحریہ کی ضرورت کے لیے ہوں گے اور یہ بحر ہند پر نظر رکھیں گے۔‘

’ دی لاسٹ وار‘ کے مصنف اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ انڈیا امریکہ کی انڈو پیسیفک سٹریٹیجی کا حصہ ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ڈرونز کو انڈیا کے ہاتھوں فروخت کرنے کے پیچھے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ انڈیا بحر ہند میں اس تجارتی راستے پر نظر رکھے جہاں سے چین کی ساری تجارت چلتی ہے۔ تاکہ کسی خطرے کی صورت میں اس راستے کو بلاکیڈ کیا جا سکے۔

وہ کہتے ہیں ’انڈیا کو بحر ہند میں ایک بڑا خطہ نگرانی کے لیے دے دیا گیا ہے۔ اس نگرانی کی جو تفصیلات آئیں گی اس کا زیادہ فائدہ امریکہ اور نیٹو ملکوں کو ہوگا۔ امریکہ اور اس کی سٹریٹیجی کو ہو گا۔‘

ساہنی کہتے ہیں کہ یہ ’ڈرون بہت مہنگے ہیں، سلو ہیں، ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت کم ہے اور اسے ایر ڈیفنس سسٹم سے گرایا جا سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے نقطہء نظر سے انڈیا کی جو ضرورت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ یہ ڈرون انتہائی مہنگے ہیں، پیسے انڈیا دے گا اور فائدہ امریکہ اٹھائے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی لیے پاکستان نے اتنے مہنگے ڈرون نہیں لیے ۔ اس نے ترکی اور چین سے ڈرون حاصل کیے ہیں اس کی ضرورت کے مطابق بہت اچھے ہیں۔

اس طرح کے ڈرون کا استعمال امریکہ نے افغانستان، سیریا ، اور عراق وغیرہ میں ٹارگٹڈ کلنگ اور مخصوص اہداف کو تباہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ حال ہی میں اسرائیل نے بھی ان کا استعمال ٹارگٹڈ ہدف کو تباہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ تو کیا انڈیا انھیں پاکستان میں مخصوص اشخاص اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کر سکتا ہے؟

اس کے جواب میں راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ان ڈرون میں اس طرح کے آپریشن کی بہترین صلاحیت ہے ’لیکن پاکستان کے خلاف اسے استعمال کرنا ذرا مشکل ہو گا‘ جس طرح کی حالیہ کشیدگی ابھی ایران اور پاکستان کے درمیان ہوئی ہے اگر اس طرح کی صورتحال انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہوتی ہے تو یہ بہت سیریس بات ہوگی۔‘

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ کہ امریکی پرڈیٹر ڈرون بہت زیدہ ’لیبر انٹینسیو‘ ہے۔ اسے چلانے، فیڈ حاصل کرنے، اسے سمجھنے، چوبیس گھنٹے نظر رکھنے اور دوسرے کاموں کے 200 سے 300 تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ان جدید ڈرون کے ساتھ انڈیا دنیا کے ان سات آٹھ ملکوں میں شامل ہو جائے گا جن کے پاس اس طرح کے ڈرون طیارے ہیں۔ یہ مہنگے ضرور ہیں لیکن مستقبل کی جنگوں کے لیے یہ انتہائی کارآمد ثابت ہوں گے۔

راہل بیدی نے بتایا کہ انڈیا نے امریکہ سے دو سکائی گارڈین ڈرون 2021 میں کرائے پر حاصل کیے تھے۔ لیکن یہ اس ساخت کے ڈرون نہیں ہیں جن سے میزائل اور بم گرائے جا سکیں۔ یہ صرف نگرانی اور جاسوسی کے ڈرون طیارے ہیں اور انڈیا کے استعمال میں ہیں۔

حال ہی میں بحیرہِ احمر میں حوثی باغیوں کے حملوں کے بعد انڈین بحریہ نے ان کا استعمال نگرانی کے لیے کیا تھا۔ ان نگراں ڈرون کا استعمال لداخ میں انڈیا چین سرحدی نائن پر چینی فوجیوں کی نقل و حرکت پر رکھنے کے لیے بھی کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں