طالبان نے انتہائی دائیں بازو کے آسٹرین رہنما کو رہا کر دیا

ویانا + دوحہ (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی ڈبلیو) افغانستان میں حکمراں طالبان نے ایک سال سے جیل میں قید ایک آسٹرین رہنما کو رہا کردیا ہے۔ چوراسی سالہ ہربرٹ فرٹز انتہائی دائیں بازو کی اس جماعت کے شریک بانی ہیں، جس پر سن 1988میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔

آسٹریا کی حکومت نے اتوار کے روز بتایا کہ افغانستان کی جیل میں قید انتہائی دائیں بازو کے رہنما چوراسی سالہ ہربرٹ فرٹز کو طالبان حکمرانوں نے رہا کر دیا ہے، انہیں گزشتہ سال افغانستان کے دورے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

آسٹریا کے چانسلر کارل نیہامر نے فرٹز کی رہائی میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور ان کی ٹیم کے “بھرپور تعاون” کے لیے شکریہ ادا کیا۔

نیہامر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا،” یہ صرف ہمارے بھروسے مند تعاون کی وجہ سے ممکن ہوسکا کہ یہ آسٹرین شہری اپنے گھر واپس لوٹ کر اپنی بیٹی اور پوتے پوتیوں سے مل سکے گا۔”

آسٹریا کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ رہائی کے بعد فرٹز اتوار کی سہ پہر افغانستان سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ گئے ہیں اور اگر ضرورت محسوس کی گئی تو آسٹریا روانگی سے قبل انہیں طبی علاج فراہم کیا جائے گا۔

انتہائی دائیں بازو کے رہنما افغانستان میں کیا کر رہے تھے؟

آسٹریا کے اخبار’ڈیر اسٹینڈرڈ’ نے گزشتہ سال اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہربرٹ فرٹز کو مئی میں افغانستان میں سفر کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اخبار کے مطابق چوراسی سالہ فرٹز انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے شریک بانی ہیں۔ اس پارٹی کو سن 1988میں ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔

انہیں ایک انتہائی دائیں بازو کے جریدے میں “طالبان کے ساتھ تعطیلات” کے عنوان سے مضمون کی اشاعت کے بعد فوراً گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں عوامی زندگی کے حوالے سے ایک مثبت نظریہ پیش کیا تھا۔

ڈیر اسٹینڈرڈ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق فرٹز پر جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ آسٹریا کے نو نازیوں نے ٹیلی گرام چینل کے ذریعہ ان کی گرفتاری کے واقعے کو عام کیا تھا۔

قطر طالبان حکومت کے فیصلے سے خوش

قطر کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ وہ آسٹرین شہری کو رہا کرنے کے افغانستان کی نگراں حکومت کے فیصلے سے خوش ہے۔

اس نے کہا، “قطر نے علاقائی اور عالمی سطح پر ثابت کیا ہے کہ وہ مختلف اہم مسائل میں ایک قابل اعتماد بین الاقوامی شراکت دار ہے۔” بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ “وہ افغانستان کی نگراں حکومت کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ افغان عوام کی امنگوں کے حصول کے لیے تعمیری بات چیت کا طریقہ اپنائے۔”

قطر نے طالبان کو سن 2013 میں دوحہ میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم کابل کے سقوط اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قطر پر بین الاقوامی دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

خیال رہے کہ دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے سن 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

طالبان نے اس ہفتے کے اوائل میں دوحہ میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اسی صورت میں اس کانفرنس میں شرکت کرے گا جب اس کی بعض شرائط تسلیم کرلی جائیں۔ ان میں افغان سول سوسائٹی کے ارکان کو مذاکرات میں مدعو نہ کرنے کی شرط بھی شامل تھی، تاہم اقوام متحدہ نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں