اسرائیل حماس جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، عالمی میڈیا اداروں کا مطالبہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) دنیا بھر کے خبر رساں اداروں کے تین درجن سے زائد رہنماؤں نے غزہ میں کام کرنے والے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں جنگ زدہ علاقے میں کام کرنے والے صحافیوں کے تحفظ اور انہیں خبریں فراہم کرنے کی آزادی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جمعرات کو جاری کیے گئے خط کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کے دوران اب تک 89 صحافی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہے۔

امریکہ کے نمایاں میڈیا اداروں کے رہنماؤں نے، جن میں ایسوسی ایٹڈ پریس، نیو یارک ٹائمز، لاس اینجلس ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، رائٹرز، نیویارک، سی این این، این بی سی نیوز، اور اے بی سی نیوز شامل ہیں، اس خط پر دستخط کیے ہیں۔

بین الاقومی میڈیا اداروں میں بی بی سی، جرمنی کا میڈیا ادارہ ڈئراشپیگل (Der Spiegel)، ایجنسی فرانس پریس، جنوبی افریقہ کا روزنامہ میورک (Maverick)، پاکستان کا نوائے وقت گروپ اور جاپان کا میڈیا ادارہ آساہی شمبون (Asahi Shimbun)ان اداروں میں شامل ہیں، جنہوں نے خط پر دستخط کیے ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سی ای او جوڈی گنز برگ کا کہنا ہے کہ مزید میڈیا ادارے اس کوشش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جوڈی کے خیال میں یہ بات اہم ہے کہ عالمی صحافت کی دنیا فلسطینی صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ صحافی ایسے شہری ہیں، جن کا تحفظ اسرائیلی انتطامیہ کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر جنگجو کے طور پر کرنا چاہئے۔ اور اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہر شخص کو جواب دہ بنانے کی ضرورت ہے۔

خط میں لکھا ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنانا سچائی پر حملہ کرنے کے مترادف ہے اور ہم غزہ میں صحافیوں کے تحفظ کی وکالت کرتے رہیں گے، جو کہ دنیا میں ہر جگہ صحافتی آزادیوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔

خط میں اسرائیل کا ذکر صرف ایک مرتبہ کیا گیا ہے، باوجود اس کے کہ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بار بار غزہ میں صحافیوں کی رسائی بہتر بنانے کے مطالبات کیے ہیں۔

خط میں اس مطالبے کو دوہرایا نہیں گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سی ای او کا کہنا تھا کہ اس وقت توجہ صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار پر مرکوز کرنا اہم ہے۔ انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا کسی میڈیا ادارے نے ان کی مہم میں حصہ لینے سے انکار بھی کیا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں