اسرائیل کو ’انتہائی مطلوب‘ القسام بریگیڈ کے نائب کمانڈر کی ’ہلاکت‘: مروان عیسیٰ کون تھے؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) وائٹ ہاؤس کے اہلکار اور امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ حماس کے رہنما اور القسام بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر اِن چیف مروان عیسیٰ اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

سات اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد یہ حماس کے سب سے سینیئر رہنما کی ہلاکت ہے۔ مروان عیسیٰ حماس کے عسکری ونگ عز الدين القسام بریگیڈ کے نائب کمانڈر تھے۔

غزہ کو کنٹرول کرنے والے فلسطینی گروپ حماس نے اس ہلاکت پر تاحال سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

دوسری طرف پیر کو امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ کی سمت کے بارے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے ساتھ بات چیت کی ہے جس میں انھیں امریکی خدشات سے آگاہ کیا گیا۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق مروان عیسیٰ کی ہلاکت ایک ہفتہ قبل ہوئی تھی جب اسرائیلی فضائی حملے میں پناہ گزین کے نصیرات کیمپ کے نیچے سرنگوں کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

مروان عیسیٰ کون تھے؟

حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر اِن چیف مروان عیسیٰ اسرائیل کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ یورپی یونین نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الضيف اور ڈپٹی کمانڈر مروان عیسیٰ کو دہشتگردوں کی بلیک لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یورپی یونین کے مطابق مروان عیسیٰ حماس کے سات اکتوبر کے حملے میں براہِ راست ملوث تھے جس میں قریب 1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں شروع ہوئیں۔

انھیں پہلی انتفادہ کے دوران اسرائیل نے پانچ سال تک جیل میں ڈالا اور 1997 میں فلسطینی اتھارٹی نے 2000 میں دوسری انتفادہ کے آغاز تک حراست میں رکھا۔

اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر سے حماس کے کئی سینیئر رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے۔ حماس کے سیاسی رہنما صالح العروری بیروت میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

خیال ہے کہ اسرائیل ہی اس حملے کا ذمہ دار تھا۔

سنہ 1965 کے دوران مروان عیسیٰ غزہ کی پٹی کے مرکز میں پناہ گزین کے لیے البريج کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی میں اتنی معلومات نہیں ہے۔ حماس کے قیام کے بعد 1987 میں انھوں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔متعدد ذرائع کے مطابق وہ القسام بریگیڈ میں سپیشل آپریشنز یونٹ میں بھی کام کر چکے ہیں۔

اسرائیلی اہداف پر حملوں میں ملوث مروان عیسیٰ کو اسرائیل نے پانچ سال قید میں رکھا۔ عرب سینٹر فار سٹڈیز آف ریڈیکلائزیشن کے مطابق 2006 میں وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل کے مبینہ منصوبے سے بچ نکلے تھے۔

25 جون 2006 کے دوران حماس نے 19 سالہ اسرائیلی فوجی جلعاد شاليط کو حراست میں لیا۔ اکتوبر 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے منصوبے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 1027 فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔

خیال ہے کہ مروان عیسیٰ نے تبادلوں کے اس عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

2011 سے قبل انھیں کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔ پھر قیدیوں کے تبادلے کے دوران ان کی تصویر منظر عام پر آئی تھی۔

14 نومبر 2012 کے دوران اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے کیے جس میں القسام بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر احمد الجعبیری ہلاک ہوئے۔ مروان عیسیٰ پر بھی حملہ کیا گیا مگر وہ بچ نکلے اور بریگیڈ کے نئے ڈپٹی کمانڈر تعینات ہوئے۔

2014 اور 2021 کے دوران غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے دوران دو مرتبہ ان کے گھر کو تباہ کیا گیا۔ ایک واقعے میں ان کا بھائی بھی ہلاک ہوا۔

حزب اللہ کے قریب سمجھے جانے والے اخبار الاکبر کے مطابق جنوری 2019 میں حماس کے اہلکاروں نے مروان عیسیٰ کی رہائش گاہ کے ساتھ والے گھر میں جاسوسی کے آلات دریافت کیے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اسرائیل نے عیسیٰ تک پہنچنے کی کوشش کی ہو۔

حماس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک اسرائیلی ایجنٹ نے مروان عیسیٰ کے ساتھیوں میں سے ایک کی کار میں جاسوسی کا آلہ نصب کیا تھا۔ اس کے مطابق ایحنٹ نے تسلیم کیا تھا کہ انھیں یہ آلہ اسرائیل کی طرف سے ملا جو انھوں نے گاڑی کے اندر چھپا دیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس آلے کا مقصد گاڑی کے اندر ہونے والی بات چیت کی جاسوسی کرنا اور کار کو ٹریک کرنا تھا۔

عیسیٰ کا گھر جس علاقے میں واقع ہے یہاں کے نجی مواصلاتی نیٹ ورک پر بھی جاسوسی کا آلہ نصب کیا گیا۔

10 ستمبر 2019 کو امریکی محکمہ خارجہ نے مروان عیسیٰ کو کالعدم تنظیم حماس میں اہم عہدہ رکھنے پر دہشتگرد قرار دیا۔

گذشتہ سال دسمبر میں فلسطینی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ مروان عیسیٰ کے بیٹے محمد اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے ہیں۔

مروان کے بارے میں ایک اسرائیلی اخبار نے ان کی ایک تصویر شیئر کی جو 2021 کے الیکشن کی ہے۔ اس میں حماس کے سیاسی بیورو میں حماس کے رہنما جمع تھے۔ اس تصویر میں صرف مروان عیسیٰ نے کووڈ سے بچاؤ کا ماسک پہن رکھا تھا اور وہ سب سے دور کھڑے تھے۔

دریں اثنا مروان عیسیٰ نے ہمیشہ یہ دھمکی دی کہ مسجد الاقصیٰ کے نظام میں تبدلی کے سنگین اثرات ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں سیاسی پروجیکٹ ختم ہوچکا ہے، دشمن نے اوسلو معاہدہ ختم کر دیا ہے اور آنے والے دن واقعات سے بھرپور ہوں گے۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ القسام بریگیڈ مسلسل مضبوط ہو رہی ہے اور یہ مزاحمت کی ایک حکمت عملی پر کام کر رہی ہے تاکہ براہِ راست مداخلت کے ذریعے لوگوں کا دفاع کیا جاسکے۔

بائیڈن کا جنگ کے اختتام کیلئے نتن یاہو پر دباؤ

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے دیگر رہنما غزہ میں ’حماس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کی گہرائی میں‘ چھپے ہوئے ہیں۔

انھوں نے وعدہ کیا کہ امریکہ حماس کے سرکردہ رہنماؤں کی تلاش میں اسرائیل کی مدد کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے ساتھ بھی انصاف ہوگا۔‘

لیکن جب انھوں نے جنگ کے آغاز کے بعد سے حماس کے خلاف اسرائیل کی متعدد فوجی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صدر بائیڈن نے نتن یاہو سے شہری ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کی۔

غزہ میں جنگ جاری رہنے کے باعث صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

سلیوان کے مطابق صدر نے اسرائیل کے ساتھ اپنی وابستگی اور حماس کے خلاف کارروائیوں کا دفاع کیا تاہم ساتھ یہ بھی کہا کہ رفح پر حملہ کرنا ’غلطی‘ ہوگی۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ حملہ ’مزید بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا باعث بنے گا۔ یہ پہلے سے ہی سنگین انسانی بحران کو مزید خراب کرے گا۔ غزہ میں انارکی کو مزید گہرا کرے گا اور اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دے گا۔‘

غزہ میں حماس کی زیرِ قیادت وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 31,000 سے زیادہ فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے اور بظاہر بعض اتحادی اسرائیل سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔

سلیوان نے کہا کہ صدر بائیڈن نے کال کے دوران نتن یاہو سے کہا کہ غزہ جنگ کو واضح اور سٹریٹیجنگ انداز میں ختم کریں۔ ’صدر نے آج دوبارہ وزیر اعظم سے کہا کہ ہم حماس کو شکست دینے کا ہدف رکھتے ہیں۔ لیکن ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو ایسا کرنے کے لیے ایک مربوط اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘

بائیڈن اور اسرائیلی رہنما کے بیچ اتفاق ہوا ہے کہ واشنگٹن میں ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جو فوجی، انٹیلیجنس اور انسانی حقوق کے حکام پر مشتمل ہوگی۔‘ اس میں رفح میں مداخلت کے حوالے سے امریکی خدشات زیرِ بحث آئیں گے۔

سلیوان نے کہا کہ توقع یہ ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد تک اسرائیل اپنے حملے میں تاخیر کرے گا۔

نتن یاہو نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس رابطے سے متعلق کہا کہ ’جنگ میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ تنازع میں اسرائیل کے اہداف پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم نے اہداف کے حوالے سے لکھا کہ ’حماس کو ختم کرنا، ہمارے تمام یرغمالیوں کو آزاد کرانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ جبکہ ضروری انسانی امداد فراہم کرنا جو ان مقاصد کے حصول میں معاون ہو گی۔‘

بائیڈن کی کال سے پہلے، امریکہ میں سینیئر ڈیموکریٹس نے نتن یاہو پر تنقید کی تھی۔

جمعرات کو سینیٹ کے رکن چک شومر نے اسرائیل میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نتن یاہو اپنی ’سیاسی بقا‘ کو ملک کی ضروریات پر ترجیح دے رہے ہیں۔

نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے ردعمل دیا کہ اسرائیل کو ’بنانا ریپبلک‘ نہیں جبکہ وزیر اعظم کی پالیسیوں کو ’بڑی حمایت حاصل ہے۔‘

صدر بائیڈن نے جمعے کو اوول آفس میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ شومر اس حوالے سے تبصرہ کرنے والے ہیں۔ صدر نے کہا کہ سینیٹ کے رہنما کے خدشات صرف ان تک محدود نہیں بلکہ یہ بہت سے امریکیوں میں پائے جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں