ایران: اس سال نوروز کے تہوار کیلئے عوام قناعت پر مجبور

تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) لاکھوں ایرانی باشندے اس سال بُدھ بیس مارچ سے شروع ہونے والے نو روز کے جشن کو اپنے اہل خانہ اور دوست و احباب کے ساتھ منانے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ تاہم کئی دہائیوں سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہونے کے سبب ایرانی عوام کے لیے مالی مشکلات بہت زیادہ بڑھ چُکی ہیں۔ اس سال جشن نو روز اقتصادی دباؤ میں منایا جا رہا ہے۔

بیس مارچ کو ایران میں ٹھیک صبح چھ بج کر چھتیس منٹ اور چھبیس سیکنڈ پر نو روز یا نئے سال کا آغاز ہو جائے گا۔ موسم بہار کے آغاز کا تعین فلکیاتی وقت کے مطابق ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں کتنے لوگ نو روز مناتے ہیں؟

عالمی سطح پر جشن نو روز یا نئے سال اور موسم بہار کا جشن ایران، افغانستان، قزاقستان، ترکی، عراق شام اور ان ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندے بشمول کُرد باشندے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی رہتے ہوں یہ تہوار رنگا رنگ تقریبات کے ساتھ مناتے ہیں۔ قریب 300 ملین لوگ نئے سال کی مبارکباد کا پیغام ایک دوسرے کو بھیجتے اور وصول کرتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی نے متعدد افراد سے نوروز کے تہوار کے بارے میں ان کے تاثرات اکٹھا کیے۔ ان افراد نے اپنے مکمل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہیں میں سے ایک تہران سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون مرجان نے کہا،”یہ سال کی سب سے اہم تعطیل ہے۔ اس موقع پر ہم اپنے پیاروں سے ملنے اور ان کے ساتھ جشن منانے کے لیے اپنی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک بہتر سال کا خواب دیکھتے ہیں۔‘‘

نوروز کے تہورار کی تاریخ

نوروز کا تہوار قریب تین ہزار سال سے منایا جا رہا ہے۔ اس کا آغاز ہر سال فلکیاتی وقت کے حساب سے ایک مخصوص دن، تاریخ، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ پر ہوتا ہے۔ نو روز کی تقریبات دو ہفتے تک جاری رہتی ہیں۔ ایرانی باشندے ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی سفر کرتے ہیں۔ لوگ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ نوروز مناتے ہیں۔ ایران کی اقصادی صورتحال سے متاثرہ عوام کے لیے اس سال جشن منانے کے لیے کم وسائل موجود ہیں اس لیے اس سال ایرانیوں نے عید نوروز کے موقع پر دعوت و ضیافت کو محدود رکھنے کا پلان بنایا ہے۔

شمالی تہران کے تاجرش بازار میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ایک 44 سالہ اکاؤنٹنٹ افشر نے کہا،”مہنگائی کی وجہ سے غذائی اشیاء بہت زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں۔‘‘

ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ، 28 سالہ قاسمی کے بقول،”صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔‘‘ انہوں نے تہران حکومت سے صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ سال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ عوام زیادہ قیمتوں، خاص طور سے خوراک اور بنیادی ضروریات کی وجہ سے تلخی محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے سبب انہوں نے حکومت کو ”مہنگائی کنٹرول‘‘ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کو کہا تھا۔ ایرانی حکام اپنے ملک کی ہوش ربا مہنگائی کا ذمہ دار مغربی دنیا کی طرف سے تہران پر لگی اقتصادی پابندیوں کو قرار دیتے ہیں۔

ایران پر اقتصادی پابندیاں

2018 ء میں امریکہ کی طرف سے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اُس وقت جب واشنگٹن نے یکطرفہ طور پر 2015 ء کے اُس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تھی جس میں تہران کے جوہری پروگرام پر روک تھام کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔ تب سے اسلامی جمہوریہ ایران اپنی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی اور قیمتوں میں اضافے کا شکار ہے۔

اس صورتحال کے باوجود ایران میں 2023ء میں توقع سے زیادہ مضبوط نمو ریکارڈرکی گئی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ سال ایران میں شرح نمو 5.4 فیصد تک پہنچ گئی اور آئی ایم ایف نے 2024 ء کی پیشن گوئی کرتے ہوئے نمو کی شرح 2.5 فیصد سے بڑھا کر 3.7 فیصد کر دی ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے حال ہی میں ”دشمن کی حکمت عملی‘‘ کی مذمت کی جس کا مقصد ”معاشرے میں مایوسی پیدا کرنا‘‘ ہے۔ ایرانی صدر نے یہ بیان یکم مارچ کے انتخابات کے دو ہفتے بعد دیا، جن میں ووٹرز ٹرن آؤٹ صرف 41 فیصد تھا، جو 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سب سے اب تک سب سے تھا۔

ایران میں بہت سے ماہرین نے ووٹروں کے کم ٹرن آؤٹ کی وجہ عوامی عدم اطمینان کو قرار دیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اقتصادی مسائل کو قرار دیا ہے۔

ایران میں یہ مسلسل دوسرا سال ہے جس میں نوروز کا تہوار رمضان البمارک کے مہینے میں آیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں رمضان کے مہینے میں روزے کے اوقات کے دوران عوام میں کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں حکام نے رمضان کے دوران ان سخت قوانین میں کچھ نرمی کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں