لاہور: توہینِ مذہب کے جرم میں آسیہ بی بی کو عمر قید کی سزا

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) لاہور کی ایک عدالت نے مسلمان خاتون کو قرآن کے اوراق جلانے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ خاتون کے وکیل نے عدالتی فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔

لاہور کی مقامی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج محمد عمران شیخ نے 40 سالہ آسیہ بی بی کے خلاف توہینِ قرآن کے مقدمے میں بدھ کو فیصلہ سنایا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق آسیہ بی بی کے خلاف یہ مقدمہ 30 ستمبر 2021 کو لاہور کے تھانہ ہیر میں تعزیراتِ پاکستان کے تحت درج کیا گیا تھا جس میں ان پر 295 بی کی دفعات لگائی گئی تھیں۔

تفصیلات کے مطابق پولیس کو ہیلپ لائن پر اطلاع دی گئی تھی کہ لاہور کے علاقے بھٹہ چوک میں ایک خاتون مبینہ طور پر قرآن جلانے کی کوشش کر رہی ہے جس پر پولیس نے موقع پر پہنچنے کے بعد خاتون کو حراست میں لے لیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے قرآن، جلے ہوئے صفحات، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور ماچس کی ڈبیہ بھی بطور ثبوت پیش کی گئی۔ مدعی نے پولیس کی جانب سے کیس کی فرانزک رپورٹ بھی پیش کی ہے جو کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی تیار کردہ ہے۔

آسیہ بی بی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ کے خلاف درج کیا گیا یہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم نے مقدمے کی میرٹ پر تفتیش نہیں کی اور مقدمے کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی نہیں ڈالی۔

تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آسیہ بی بی خود کو بے قصور ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق ان پر قرآن کی بے حرمتی کا جرم ثابت ہوتا ہے جس پر عدالت انہیں عمر قید کی سزا سناتی ہے۔

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین کا مرتکب پایا جائے تو اسے موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

ملزمہ کی ذہنی حالت درست قرار

ایڈیشنل سیشن جج محمد عمران شیخ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزمہ آسیہ بی بی کی ذہنی حالت درست ہے اور انہیں ٹرائل کے لیے درست قرار دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جرم کے وقت خاتون کی ذہنی حالت درست تھی اور وہ کسی مرض میں مبتلا نہیں تھی۔

آسیہ بی بی اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جنہیں عدالتی فیصلے کے بعد سینٹرل جیل لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔

آسیہ بی بی کے وکیل سرمد علی کہتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے میں ان کی مدعیہ کو انصاف کے حق سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔

وائس آف امریکہ نے آسیہ بی بی کے اہلِ خانہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

دوسری جانب کیس کے سرکاری وکیل محزیب اویس کے بقول آسیہ بی بی کے پاس اپیل کا حق موجود ہے اور وہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اعلٰی عدلیہ سے رجوع کر سکتی ہیں۔

کیس کے ایک مدعی وکیل غلام مصطفٰی چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آسیہ بی بی نے قرآن کی بے حرمتی کی تھی جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ ان کے بقول ملزمہ کی ذہنی حالت بالکل درست ہے جسے عدالتی زبان میں ’فٹ ٹو ٹرائل‘ کہا جاتا ہے۔

غلام مصطفیٰ چوئدری کے مطابق آسیہ بی بی کی ذپنی حالت کو مستند سرکاری ڈاکٹروں سے چیک کرایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ملزمہ کی ذہنی حالت کو بالکل درست قرار دیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی 2019 میں آسیہ بی بی نامی ایک اور خاتون کو کم و بیش ایسے ہی ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کر کے انہیں بری کر دیا تھا جس کے بعد آسیہ بی بی کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں۔

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین اور ان سے جڑی سزاؤں پر انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں