پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، امریکی محکمۂ خارجہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی محکمۂ خارجہ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں بھارت، پاکستان اور دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں اسرائیل-حماس جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاوہ یوکرین پر روس کے حملے اور سوڈان میں خانہ جنگی کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے یوکرین پر روس کے حملے کو انسانی حقوق کی ایک اہم خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے شہریوں پر تشدد کے استعمال کو ‘جنگ کا آلہ’ قرار دیتے ہوئے کہا، “روس کی انسانی حقوق کی بے توقیری اور توہین پوری طرح سے عیاں ہے۔”

اسرائیل-حماس کے تنازع کے حوالے سے بلنکن نے کہا کہ اس لڑائی نے “انسانی حقوق کے لیے شدید پریشان کن خدشات کو جنم دیتا ہے۔”

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ نے پچھلے سال سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے اور اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں اپنے ردِعمل میں شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچائے۔

رپورٹ کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے مغربی کنارے میں انتہا پسند آبادکاروں کے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی بھی مذمت کی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ ہر سال دنیا کے مختلف ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر کانگریس کو امریکی قانون کے تحت رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہے۔

پاکستان

امریکی محکمۂ خارجہ کی 2024 کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال قومی اور مقامی سطح پر زندگی کے کئی شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قابلِ اعتماد رپورٹس ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال انسانی حقوق کی صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کی شناخت اور انہیں سزا دینے کے لیے شاذ و نادر ہی اقدامات کیے ہیں۔

رپورٹ میں پاکستان میں گزشتہ سال ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ماورائے عدالت قتل؛ جبری گمشدگیوں کے واقعات، حکومت یا اس کے ایجنٹوں کی طرف سے ظالمانہ، غیر انسانی، یا ذلت آمیز سلوک، من مانی حراست، سیاسی قیدی، آزادیٔ اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیاں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں صحافیوں کے خلاف تشدد، صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریاں اور گمشدگیاں، سنسر شپ، توہین مذہب کے خلاف قوانین، اقلیتوں کے خلاف واقعات، انٹرنیٹ کی آزادی پر سنگین پابندیاں، پرامن اجتماع کی آزادی میں خاطر خواہ مداخلت، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، جنسی تشدد، کم عمری اور جبری شادیاں، ہم جنس پرستوں، ٹرانس جینڈر افراد کو نشانہ بنانے والے تشدد یا تشدد کی دھمکیاں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں لوگوں کے اغوا اور جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے کچھ اہلکاروں نے مبینہ طور پر افراد کو قید میں رکھا اور ان کے مقام کو ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔

محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں نے اطلاع دی کہ حکام نے بغیر کسی وجہ یا وارنٹ گرفتاری کے پشتون، سندھی اور بلوچ انسانی حقوق کے کارکنوں کے گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کی گمشدگی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔

حکومتی سطح پر کوششوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر 2023 میں نگراں وفاقی حکومت نے لاپتا افراد کے مقدمات کے حل کے لیے وزیرِ داخلہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ حکومتی کمیشن آف انفورسڈ ڈس اپیئرنس کی جانب سے اگست میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2011 سے اب تک کمیشن کو رپورٹ کیے گئے 9,967 لاپتا افراد کے کیسز میں سے 7,714 حل کیے گئے، جب کہ 2,253 زیرِ التوا ہیں۔

محکمۂ خارجہ نے رپورٹ میں نوٹ کیا کہ عسکریت پسند تنظیموں اور دیگر غیر ریاستی عناصر کی طرف سے تشدد، بدسلوکی، سماجی و مذہبی عدم برداشت اور لاقانونیت کے کلچر میں اضافہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق “دہشت گردی کے تشدد اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے انسانی حقوق کے مسائل میں اہم کردار ادا کیا۔ سال کے دوران دہشت گردی کے تشدد میں اضافہ ہوا۔ شہریوں، فوجیوں اور پولیس کے خلاف دہشت گرد اور سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف اہم مہمات جاری رکھی۔”

میڈیا کی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی مثال دیتے ہوئے رپورٹ نوٹ کرتی ہے کہ پچھلے سال سیکیورٹی فورسز، سیاسی جماعتوں کے ارکان، عسکریت پسندوں، بااثر زمینداروں اور دیگر گروہوں نے میڈیا اداروں، صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو دھمکیاں دیں اور انہیں ہراساں کیا۔

اس کے علاوہ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر جنسی تشدد اور ہراساں کرنے کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا، بشمول سوشل میڈیا کے ذریعے، جہاں خواتین کی خاصی مضبوط موجودگی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر صحافیوں کو اغوا کیا۔

رپورٹس کے مطابق فوج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میڈیا سروس (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل اور حکومت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) جیسے اداروں کے ذریعے مبینہ طور پر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سنسر شپ کو نافذ کیا۔

آزادی صحافت کی صورتِ حال کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ ججوں نے میڈیا ریگولیٹری ایجنسیوں کو حکم دیا کہ وہ فوج یا عدلیہ پر تنقید کرنے والے مواد پر آئینی پابندیاں نافذ کریں۔ میڈیا کو سیاست دانوں کی ان تقاریر اور انتخابات سے متعلق کوریج کو سنسر کرنے پر مجبور کیا گیا جنہیں ‘عدلیہ مخالف یا فوج مخالف’ سمجھا جائے۔

گزشتہ سال نو مئی کے واقعات کے حوالے سے رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ پیرا ملٹری فورسز نے اس روز سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا۔ اس گرفتاری کے نتیجے میں ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ اور راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر سمیت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس کے جواب میں حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، ہزاروں افراد کو گرفتار کیا، جن میں پی ٹی آئی کے سیاسی کارکنان اور پی ٹی آئی کے ہمدرد صحافی شامل تھے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کی ایک بڑی تعداد قید میں رہی۔ حکومت اور فوج نے اعلان کیا کہ فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث پرتشدد مظاہرین کا مقدمہ سویلین عدالتوں کے بجائے فوجی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔ 9 مئی سے پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنماؤں کو ضمانت ملنے کے بعد بھی بار بار گرفتار کیا گیا۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومتیں ماضی میں کہتی رہی ہیں کہ ملک کا آئین تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیتا ہے اور وہ آئین پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔

بھارت

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں زندگی کے کئی شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس سامنے آئیں۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں سال کے دوران کوکی اور میتی نسلی گروہوں کے درمیان نسلی تنازعات کے پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔

میڈیا نے 3 مئی سے 15 نومبر کے درمیان کم از کم 175 افراد کی ہلاکت اور 60,000 سے زیادہ بے گھر ہونے کی اطلاع دی۔ کارکنوں اور صحافیوں نے گھروں، کاروباروں اور عبادت گاہوں کی تباہی کے علاوہ مسلح تصادم، ریب اور حملوں کی اطلاع دی۔ حکومت نے تشدد کے جواب میں سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا، روزانہ کرفیو نافذ کیا اور انٹرنیٹ بند کر دیا۔

انسانی حقوق کے اہم مسائل میں قابل اعتماد رپورٹس شامل ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، حکومت کی طرف سے تشدد یا ظالمانہ، غیر انسانی، یا ذلت آمیز سلوک یا سزا، جیل کے سخت اور جان لیوا حالات، من مانی گرفتاری یا حراست، صنفی تشدد، کام کی جگہ پر تشدد، خواتین کے جنسی اعضا کاٹنا، نسلی اور ذات پات کی بنیاد پر اقلیتوں کو نشانہ بنانا شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت کی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والے اہلکاروں کی شناخت اور سزا کے لیے کم سے کم قابل اعتبار اقدامات یا کارروائی کی۔

جموں و کشمیر، شمال مشرقی ریاستوں اور ماؤنواز دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں دہشت گردوں نے سنگین زیادتیاں کیں، جن میں مسلح افواج کے اہلکاروں، پولیس، سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں کا قتل اور اغوا شامل ہے۔

رپورٹ میں درج ہے کہ جموں و کشمیر، شمال مشرقی ریاستوں اور ملک کے ماؤنواز سے متاثرہ علاقوں میں سرکاری فورسز اور غیر سرکاری اداروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی اطلاع ملی۔

اس سال کے دوران حکومت یا اس کے ایجنٹوں نے ماورائے عدالت قتل سمیت کئی طرح کی رپورٹیں من مانی یا غیر قانونی قتل کی ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں اکثر پولیس یا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ملزم افراد کی مبینہ طور پر کی جانے والی ہلاکتوں کو “انکاؤنٹر کلنگ” قرار دیا جاتا ہے۔

جموں کشمیر کے پس منظر کے حوالے سے رپورٹ میں ذکر ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 2006-1989 کے درمیان جموں و کشمیر کے علاقے میں تقریباً 8,000-10,000 افراد لاپتہ ہوئے، جن کی ذمہ داری مبینہ طور پر سرکاری افواج، نیم فوجی دستوں اور دہشت گردوں پر ہے۔

رپورٹ میں اتر پردیش میں رونما ہونے والے پر تشدد واقعہ کا بھی ذکر ہے۔ پریس رپورٹس کے مطابق 15 اپریل کو صحافیوں کا روپ دھارے تین افراد نے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پولیس کی موجودگی میں گولی مار کے ہلاک کردیا۔

عتیق احمد ایک سزا یافتہ قیدی تھے جو سماج وادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ تھے۔

اتر پردیش حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن قائم کیا۔ ریاستی حکومت نے 30 ستمبر کو کہا کہ اسے عتیق اور اشرف احمد کی موت کی تحقیقات میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ملی۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیاں پر تشدد واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

آزادی اظہار کے حوالے سے رپورٹ کہتی ہے کہ بھارت کے عوام نے آن لائن پلیٹ فارمز، ٹیلی ویژن، ریڈیو، یا پرنٹ میڈیا کے ذریعے حکومت پر عوامی اور نجی طور پر تنقید کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کیا۔ لیکن ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں حکومت یا حکومت کے قریبی سمجھے جانے والے لوگوں نے میڈیا اداروں پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا یا ہراساں کیا جس میں آن لائن ٹرولنگ بھی شامل تھی۔

بھارتی حکام کی جانب سے امریکی محکمۂ خارجہ کی انسانی حقوق کے رپورٹ میں درج خلاف ورزیوں پر ابھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اکثر اپنی حکومت کی معاشی ترقی کا حوالہ دے کر اس کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں